طالبان کو افغان حکومت سے مذاکرات کرنے پر مجبور کرنا ٹرمپ کی اہم حکمت عملی
سیکوریٹی صورتحال کا صحیح اندازہ لگانا مشکل
واشنگٹن ۔ 29 جنوری (سیاست ڈاٹ کام) امریکہ کے اعلیٰ مذاکرات کار کا کہنا ہے کہ امریکہ اور افغانستان کے درمیان امن معاہدے کے مسودے پر اتفاق ہو گیا ہے تاکہ افغانستان میں جاری 17 سالہ لڑائی کو ختم کیا جا سکے۔گذشتہ ہفتے قطر میں امریکہ اور طالبان کے درمیان چھ روز تک مذاکرات جاری رہے۔افغان صدر نے طالبان کو براہ راست مذاکرات کی نئی پیشکش کی، لیکن انھوں نے حکومت کو ’کٹھ پتلی‘ کہتے ہوئے مسترد کر دی۔تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ ایک پختہ امن معاہدے کو کئی سال لگ سکتے ہیں۔افغانستان کے لیے امریکہ کے خصوصی ایلچی زلمے خلیل زاد دوحا میں چھ روزہ مذاکرات سے متعلق افغان حکومت کو آگاہ کرنے کے لیے کابل میں موجود تھے۔امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ کی انتظامیہ کی حکمت عملی یہی رہی ہے کہ طالبان کو افغان حکومت کے ساتھ مذاکرات کرنے پر مجبور کیا جائے۔جنگ بندی اور ان براہ راست مذاکرات میں طالبان کی شرکت کے بدلے میں افغانستان سے امریکی افواج کے مکمل انخلا کی بات کی جا رہی ہے۔طالبان کا کہنا ہے کہ وہ صرف اسی وقت حکومت کے ساتھ مذاکرات شروع کریں گے جب غیر ملکی افواج کے انخلا کی صحیح تاریخ دی جائے گی۔افغانستان میں 17 سال سے جاری اس لڑائی میں بہت زیادہ جانی نقصان ہوا ہے۔ اقوام متحدہ کے اعداد و شمار کے مطابق سنہ 2009 کے بعد سے ہر سال چھ سے نو ہزار کے درمیان عام شہری مارے گئے ہیں۔نیو یارک ٹائمز کے ساتھ انٹرویو میں زلمے خلیل زاد نے کہا ہے کہ طالبان نے القاعدہ جیسے شدت پسند گروہوں کو محفوظ پناہ گاہیں نہ دینے کا عہد کیا ہے۔
انھوں نے کہا ’طالبان نے ہمارے اطمینان کے لیے عہد کیا ہے کہ وہ افغانستان کو بین الاقوامی شدت پسندوں کے لیے پلیٹ فارم بننے سے روکنے کے لیے ہر ضروری اقدام کریں گے۔‘اس انٹرویو سے قبل خصوصی ایلچی کی جانب سے ان مذاکرات کے بارے میں چند سلسلہ وار ٹوئٹس سامنے آئی تھیں جن میں انھوں نے کہا تھا ’خاطرخواہ پیشرفت‘ ہوئی ہے لیکن ان کی جانب سے مزید تفصیلات فراہم نہیں کی گئی تھیں۔بی بی سی کے دفاع اور سفارتی امور کے نامہ نگار جوناتھن مارکس کے مطابق اکثر کہا جاتا ہے کہ افغانستان میں امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے لیے کوئی فوجی حل موجود نہیں ہے۔ امریکہ کی کوشش یہ ہے کہ وہ طالبان کو اس بات پر قائل کرے کہ وہ جیت نہیں سکتے ہیں۔لیکن کیا یہ حکمت عملی کامیاب ہو رہی ہے؟ حالیہ مذاکرات کو دیکھتے ہوئے تو لگتا ہے کہ کسی حد تک ایسا ہو رہا ہے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ طالبان ایک قدرے مستحکم اپوزیشن سے بات کر رہے ہیں۔افغان سکیورٹی فورسز کو بہت نقصان ہوا ہے۔ کل آبادی کا دو تہائی حصہ حکومت کے زیر کنٹرول یا زیر اثر ہے۔سکیورٹی صورت حال کا صحیح اندازہ لگانا انتہائی مشکل ہے۔ امریکی فوجی ذرائع کی جانب سے بڑے پیمانے پر اتار چڑھاؤ سامنے آ رہے ہیں۔ اب امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ یہ اشارے دے رہے ہیں کہ وہ کچھ اور بالآخر تمام امریکی فوجیوں کو نکالنا چاہتے ہیں لیکن امریکی انخلا کی حکمت عملی غیر یقینی اور غیر واضح ہے۔پیر کو افغان صدر اشرف غنی کی جانب سے تازہ پیش کش سامنے آئی جس میں انھوں نے طالبان کو ان کی حکومت کے ساتھ براہ راست مذاکرات کی درخواست کی ہے۔