گوئٹے مالاسٹی ۔ 25 ڈسمبر (سیاست ڈاٹ کام) امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے جب سے یروشلم کو اسرائیل کے دارالحکومت بنائے جانے کا اعلان کیا ہے، اس دن سے آج تک دنیا کے تمام ممالک میں اس فیصلہ کے خلاف احتجاج ہورہے ہیں جبکہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں بھی 128 ممالک نے امریکہ کے خلاف ووٹ دیا اور اس کے بعد جو ہوا وہ سب جانتے ہی ہیں کہ کس طرح اقوام متحدہ میں امریکی سفیر نکی ہیلی نے مخالفت کرنے والے ممالک کو دھمکیاں دیں بلکہ اپنے آقا (ٹرمپ) کو خوش کرنے کیلئے یہ بھی کہا کہ وہ ان ممالک کی شکایت اپنے آقا سے کریں گی حالانکہ ٹرمپ کے فیصلہ کے خلاف تمام ممالک سے یہ اپیل کی گئی ہیکہ وہ اپنے دارالحکومت یروشلم ہرگز منتقل نہ کریں لیکن جیسا کہ کہا جاتا ہیکہ امریکی پٹھوؤں کی کوئی کمی نہیں ہے۔ گوئٹے مالا اپنا سفارتخانہ اب یروشلم منتقل کرنے کی تیاریاں کررہا ہے۔ صدر جمی موریلز نے اج اس بات کی توثیق کی کہ امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ کے فیصلہ کو مدنظر رکھتے ہوئے انہوں نے (جمی) یہ فیصلہ کیا ہے۔ اسرائیلی وزیراعظم بنجامن نتن یاہو سے بات کرنے کے بعد انہوں نے فیس بک پر گوئٹے مالا کے شہریوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ اس وقت جو سب سے اہم واقعہ رونما ہوا ہے وہ گوئٹے مالا کے دارالحکومت کا تل ابیب سے یروشلم منتقل ہونا ہے۔ انہوں نے اپنی تحریر میں مزید کہا کہ اس سلسلہ میں انہوں نے وزارت خارجہ کو ضروری ہدایتیں دی ہیں کہ دارالحکومت کو یروشلم منتقل کرنے کا عمل شروع کردیا جائے۔ یاد رہیکہ صرف تین روز قبل ہی اقوام متحدہ کے دوتہائی ارکان ممالک ٹرمپ کے فیصلہ کو مسترد کرچکے ہیں اور کرسمس کے ’’مبارک‘‘ موقع پر جمی موریلز نے گوئٹے مالا کے دارالحکومت کو تل ابیب سے یروشلم منتقل کرنے کا اعلان کیا۔ تمام 128 ممالک کا یہ ماننا ہیکہ یروشلم کا فیصلہ اسرائیل اور فلسطین کے درمیان امن مذاکرات کے ذریعہ کیا جانا چاہئے۔ صرف آٹھ ممالک ایسے تھے جنہوں نے امریکہ کے حق میں ووٹ دیا ان میں گوئٹے مالا اور ہنڈوراس بھی شامل ہیں کیونکہ یہ دونوں ممالک عملاً امریکی امداد پر ہی پلتے ہیں جہاں ان ممالک کی سرحدوں پر مختلف مجرمانہ گروہوں کا بول بالا ہے اور وہاں گینگ وار ایک عام بات ہے۔ السلویڈور بھی ایک ایسا ملک ہے جہاں تشدد، بدعنوانی وار غربت کا بول بالا ہے جس کی وجہ سے وہاں کے لوگ امریکہ ہجرت کرجاتے ہیں حالانکہ امریکہ سے انہیں 750 ملین ڈالرس سالانہ کی امداد دی جاتی ہے تاکہ داخلی حالات بہتر ہوسکیں۔ دوسری طرف اگر ہم گوئٹے مالا کے صدر موریلز کے ماضی کا جائزہ لیں تو پتہ چلے گا کہ وہ بھی امریکی صدر کی طرح ’’شوبزنس‘‘ سے وابستہ تھے۔ ٹیلیویژن پر ان کا بول بالا تھا جبکہ سیاسی تجربہ صفر تھا لیکن جس طرح قدرت ٹرمپ پر مہربان رہی اسی طرح 2016ء میں موریلز بھی کوئی سیاسی پس منظر نہ رکھنے کے باوجود گوئٹے مالا کے صدر بن گئے۔ اسی دوران انہوں نے گوئٹے مالا میں ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ملک تاریخی طور پر ہمیشہ سے ہی اسرائیل حامی رہا ہے اور اسرائیل کے ساتھ ان کے تعلقات آج کل کے نہیں بلکہ پورے 70 سال پرانے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ امریکہ کی تائید کرنے والے ممالک صرف مٹھی بھر ہیں لیکن ہمیں یقین ہے کہ ہم ہی صحیح راستے پر ہیں اور حق بجانب ہیں۔ حیرت کی بات تو یہ ہیکہ امریکہ کے کئی حلیف ممالک بھی ووٹنگ سے غیرحاضر رہے جیسے آسٹریلیا، کینیڈا، میکسیکو اور پولینڈ۔ ٹرمپ اور نکی ہیلی نے امریکہ کی مخالفت کرنے والے ممالک کو انتباہ دیا تھا کہ ان کی مالی امداد بند کردی جائے گی۔ دوسری طرف برطانیہ، فرانس، جرمنی اور جنوربی کوریا نے جرأت کا مظاہرہ کرتے ہوئے امریکہ کے یکطرفہ فیصلہ کو مسترد کردیا تھا۔ جو ممالک امریکہ کی تائید میں رہے ان میں گوئٹے مالا، ہنڈوراس، اسرائیل، دی مارشل آئی لینڈس، مائیکرونیشیا، نورو، پلاؤ اور ٹوگو شامل ہیں جبکہ صدر فلسطین محمود عباس نے واضح طور پر کہہ دیا تھا کہ اب وہ امریکہ کے کسی بھی امن منصوبہ کو قبول نہیں کریں گے جس سے امریکہ کے اس پیشرفت کو یقینا دھچکا لگا ہے جس کی اس سلسلہ میں آئندہ سال منصوبہ بندی کی جارہی ہے۔