امریکہ کی جانب سے بی جے پی کی جاسوسی پر تشویش

نئی دہلی ۔ یکم جولائی (سیاست ڈاٹ کام) بی جے پی نے امریکہ کی جانب سے جاسوسی کی اطلاعات کو انتہائی سنگین قرار دیا۔ مرکزی وزیر پرکاش جاودیکر نے آج کہاکہ حکومت حقائق کا پتہ چلنے کے بعد یہ معاملہ مؤثر انداز میں اُٹھائے گی۔ اُنھوں نے یہ تبصرہ ایسے وقت کیا جبکہ یہ اطلاعات مل رہی ہیں کہ امریکہ کی نیشنل سکیورٹی ایجنسی کو امریکی عدالت نے 2010 ء میں بی جے پی کے ساتھ ساتھ دنیا بھر میں دیگر 5 سیاسی تنظیموں پر نگرانی رکھنے کا اختیار دیا تھا۔ پرکاش جاودیکر نے کہاکہ یہ ایک سنگین معاملہ ہے اور ہم یہ معلوم کریں گے کہ حقیقت کیا ہے۔ اگر چند تنظیموں کو نشانہ بنایا جاتا ہے تو یہ ایک سنگین بات ہوگی۔ وزیر اطلاعات و نشریات پرکاش جاودیکر نے کہاکہ یہ معاملہ یقینا مؤثر انداز میں اُٹھایا جائے گا۔ بی جے پی جنرل سکریٹری راجیو پرتاب روڈی نے بھی تشویش ظاہر کرتے ہوئے کہاکہ اِن اطلاعات کی پہلے توثیق کی جانی چاہئے۔ اُنھوں نے کہاکہ وزارت اُمور خارجہ کو موزوں ردعمل ظاہر کرنا چاہئے۔ اُنھوں نے کہاکہ ایڈورڈ اسنوڈین کے بی جے پی کی جاسوسی سے متعلق انکشافات کی توثیق کی جانی چاہئے۔

اگر یہ سچ ہے تو وزارت اُمور خارجہ موزوں ردعمل ظاہر کرے۔ یہ ہمارے لئے انتہائی تشویش کا معاملہ ہے۔ بی جے پی میڈیا سیل کے انچارج سریکانت شرما نے بھی اِسے ایک سنگین معاملہ قرار دیا اور کہاکہ اگر میڈیا کی اطلاعات میں سچائی ہے تب حکومت ضرور کارروائی کرے گا۔ واشنگٹن پوسٹ نے اسنوڈن کے افشاء کردہ بعض خفیہ دستاویزات کا انکشاف کیا ہے جس کے بعد بی جے پی کے بشمول مصر کی اخوان المسلمین اور پاکستان پیپلز پارٹی و دیگر کی جاسوسی کی اجازت دی گئی۔ دیگر بیرونی تنظیموں میں لبنان کی ’عمل‘ اور ونیزویلا کی ’بی سی سی‘ کے علاوہ مصر کی ’نیشنل سالویشن فرنٹ‘ شامل ہے۔ دستاویز میں 193 بیرونی حکومتوں اور غیر ملکی تنظیموں و گروپس کے نام شامل کئے گئے ہیں اور یہ 2010 ء کی توثیق شدہ فہرست کا حصہ ہے جسے فارن انٹلی جنس سرویلنس کورٹ کی منظوری حاصل ہے، اِس فہرست میں ہندوستان بھی شامل ہے۔

جاسوسی معاملہ امریکہ سے رجوع کیا جائے گا
ہندوستان نے حکمراں بی جے پی کی جاسوسی کی اطلاعات کو انتہائی ناقابل قبول قرار دیتے ہوئے کہاکہ اگر معاملہ سچ ہے تو اِسے امریکہ سے رجوع کیا جائے گا کیونکہ ہندوستانی تنطیم یا کسی ہندوستانی انفرادی شخص کے نجی معاملات میں مداخلت کی گئی ہے اور یہ ناقابل قبول ہے۔ وزارت اُمور خارجہ کے ترجمان نے کہاکہ موجودہ مرحلہ میں اُنھوں نے اطلاعات کا مشاہدہ نہیںکیا لیکن ہمارا یہ موقف واضح ہے کہ ہندوستان کے نجی معاملات قوانین کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا اور اِس قانون کے تحت کسی انفرادی شخص یا تنظیم کی جاسوسی کی اجازت نہیں ہے۔