امریکہ میں ہندوستانی نفرت کا شکار

خودی کے ساتھ مری بے خودی گذرتی ہے
عجیب موڑ سے اب زندگی گذرتی ہے
امریکہ میں ہندوستانی نفرت کا شکار
امریکہ میں نفرت پر مبنی جرائم میں اضافہ تشویشناک بنتا جارہا ہے۔ صدر ڈونالڈ ٹرمپ کی پالیسیوں نے اندرون امریکہ اور ساری دنیا کے ملکوں کو ایک غلط پیام دیا ہے جس کے نتائج غیر امریکیوں کو نشانہ بنانے کے واقعات کی شکل میں سامنے آرہے ہیں۔ ایسے ہی واقعات میں ہندوستانی شہریوں پر حملے کرتے ہوئے نوجوانوں کو ہلاک کردیا جارہا ہے۔ امریکی شہر کنساس میں پیش آیا تازہ فائرنگ کا واقعہ بھی ڈونالڈ ٹرمپ کی نفرت پر مبنی پالیسی کا نتیجہ سمجھا جارہا ہے۔ اس فائرنگ میں حملہ آور نے ہندوستانی نوجوانوں کا جو ریاست تلنگانہ کے شہر حیدرآباد کا متوطن تھا، گولی مار کر ہلاک کردیا۔ حملہ آور نے فائرنگ کے ساتھ اپنی نفرت کا بھی اظہار کیا ہے۔ اس نے ’’میرے ملک سے چلے جاؤ‘‘ کا نعرہ لگا کر یہ تو واضح کردیا کہ امریکہ میں غیرملکیوں کے تعلق سے ڈونالڈ ٹرمپ کی پالیسیاں رنگ لارہی ہیں۔ ان کے حالیہ ایگزیکیٹیو آرڈرس کا بھی منفی اثر پڑ رہا ہے۔ اس طرح کے واقعات اور تبدیلیاں خود امریکہ کیلئے ایک بڑا چیلنج بن جائیں گے۔ کنساس سٹی کے حملہ آور کا تعلق سابق ملازم فیڈرل ایویشن ایڈمنسٹریشن سے رہا ہے۔ گذشتہ دنوں امریکہ میں داخلے سے روکنے کے واقعات نے بھی ساری دنیا کے سفری اصولوں کو بالائے طاق رکھ دینے کا کام ہے۔ امریکہ کے سرحدی علاقہ میکسیکو کے باشندوںکو بھی ملک بدر کردینے کا سلسلہ خطرناک رخ اختیار کرلیا۔ میکسیکو کے باشندے نے امریکہ سے بیدخلی کے بعد عمارت سے چھلانگ لگا کر خودکشی کرلی۔ اسے تیسری مرتبہ امریکہ سے بیدخل کئے جانے پر وہ دلبرداشتہ ہوگیا تھا۔ اس کے علاوہ ہر روز کوئی نہ کوئی باشندہ امریکی صدر کی نفرت پر مبنی پالیسیوں سے پیدا ہونے والی صورتحال کا شکار ہورہا ہے۔ ٹرمپ کی پالیسیوں کے خلاف کئی ملکوں کے سربراہوں اور مختلف تنظیموں کے ذمہ داروں نے بیانات دیئے ہیں جن میں ٹرمپ کو پاگل پن کی حد تک پالیسیاں بنانے کا الزام عائد کیا ہے۔ امریکہ کی تاریخ میں کسی بھی صدر نے عالمی سطح پر نفرت کا سبب بننے والی پالیسیاں وضع نہیں  کیں۔ صدر کی حیثیت سے ڈونالڈ ٹرمپ بظاہر اپنے ملک کے شہریوں کے مسائل حل کرنے کی بات کرتے ہیں مگر ان کے اصل مسائل کی جانب ان کی عدم توجہ نے خود امریکیوں کی نظر میں وہ ایک جلد باز غیرشعور شخص کے طور پر ابھرے ہیں۔ خود امریکیوں کی اکثریت نے یہ کہنا شروع کیا ہیکہ ٹرمپ کی بے قوفیوں کی وجہ سے شہریوں کے اصل مسائل پر بات ہی نہیں ہورہی ہے۔ امریکی معیشت اور خارجہ پالیسی پر ان کی پالیسیاں صفر دکھائی دے رہی ہیں۔ امریکی مسلمانوں کو نفرت کا شکار بنانے والے اقدامات نے خطرناک حالات پیدا کئے ہیں لیکن امریکیوں کی  بڑی تعداد اپنے مسلم ساتھیوں کے حق میں اٹھ کھڑی ہے اس کے باوجود امریکہ بھر میں عوام کے ذہنوں کو مخالف مسلم یا غیرملکی باشندوں کے تعلق سے زہریلا بنانے کا کام کیا جائے تو کنساس سٹی کے فائرنگ واقعہ کی طرح حالات دن بہ دن امریکہ کے ساتھ ساری دنیا کے ملکوں کیلئے افسوسناک رخ اختیار کر جائیں گے۔ ٹرمپ نظم و نسق اور امریکی ایوان نمائندگان کے ذمہ داران کے علاوہ شہری تنظیموں کے سربراہوں کو امریکہ میں خطرناک حد تک پھیلائے گئے نفرت پر مبنی پالیسیوں کی نفی کرنے کیلئے تیزی سے میدان عمل میں آنے کی ضرورت ہے۔ امریکہ میں مسلمانوں کی بڑھتی ہوئی آبادی کی وجہ سے امریکی سیاستدانوں کیلئے وہاں کے مسلم رائے دہندے کی اہمیت بڑھ گئی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ مخالف مسلم طاقتوں کا کام آسان کرنے والا ٹرمپ کا ایجنڈہ خطرناک حد تک خونی حالات کی شکل میں ابھر رہا ہے۔ ان حالات میں ہندوستان کے بشمول ان تمام ملکوں کی حکومتوں کو فوری قدم اٹھاتے ہوئے امریکی حکومت سے دوٹوک بات کرنی چاہئے۔ اگرچیکہ حکومت ہند نے امریکہ میں مقیم ہندوستانیوں کے مسائل کی جانب توجہ دینے اور روزگار ویزا سے متعلق ٹرمپ کی پالیسیوں کو روکنے کی کوشش کے حصہ کے طور پر وزیراعظم نریندر مودی نے سفارتکاری اقدامات ضرور کئے ہیں لیکن ہندوستانی شہریوں کو نفرت پر مبنی جرائم سے محفوظ رکھنے کیلئے مزید اقدامات کرنے ہوں گے۔ اس کے علاوہ غیرمقیم ہندوستانیوں کو بھی باہمی طور پر اپنی حفاظت کی خاطر امریکی عوام سے تعاون حاصل کرکے نفرت پر مبنی مہم کو ناکام بنانے کی کوشش کرنی چاہئے۔
بی جے پی کی متواتر کامیابیاں
نوٹ بندی جیسے تلخ تجربات کے باوجود عوام کی اکثریت مرکز کی حکمراں پارٹی بی جے پی کے حق میں اپنے ووٹوں کا استعمال کررہی ہے تو یہ ایک ایسی لہر ہے جس کے ذریعہ حکمراں پارٹی ہندوستان کو اپنے نظریات کی سرزمین میں تبدیل کرنے کی کوشش میں کامیاب ہوسکتی ہے۔ ان خطرناک بدلتے حالات کے باوجود ملک کا سیکولر رائے دہندہ منقسم رائے کا شکار ہوتا جارہا ہے۔ حالیہ مہاراشٹرا میونسپل کارپوریشن انتخابات میں 1268 نشستوں کے منجملہ بی جے پی نے 628 نشستوں پر کامیابی حاصل کی جو 2012ء کی کامیابی سے کہیں زیادہ ہے۔ انتخابات میں بی جے پی قیادت کی مقبولیت کا فائدہ اٹھانے والے امیدواروں نے رائے دہندوں کو راغب کرانے میں کامیابی حاصل کی۔ مہاراشٹرا کے دارالحکومت ممبئی میں بھی بی جے پی کو شیوسینا کے برابر کامیابی ملی جبکہ کانگریس اور نیشنلسٹ کانگریس پارٹی ایک ہندسی کامیابی تک سڑک کر رہ گئیں۔ یہ کامیابیاں بلاشبہ بی جے پی کیلئے ہی اچھے دن کا ثبوت ہیں۔ مابعد نوٹ بندی اقدام بی جے پی کو ملک کی مختلف ریاستوں میں ہونے والے انتخابات میں پہلے سے زیادہ کامیابی ملی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہیکہ 8 نومبر کو کئے گئے وزیراعظم کے نوٹ بندی  اعلان کا رائے دہندوں نے  خیرمقدم کیا ہے۔ اوڈیشہ اور مہاراشٹرا میں کامیاب ہونے کے علاوہ اس نے چندی گڑھ میونسپل کارپوریشن میں 26 کے منجملہ 21 پر کامیابی  حاصل کی تھی جبکہ گجرات میں بھی 123 نشستوں کے منجملہ 107 پر بی جے پی امیدوار منتخب ہوئے۔ فریدہ آباد میں بھی بلدی  انتخابات میں 40 نشستوں میں سے اسے 30 نشستیں ملی تھیں۔ اب بی جے پی نے اترپردیش کے انتخابات میں بھاری اکثریت سے کامیابی کا یقین ظاہر کیا ہے تو نوٹ بندی پر مودی حکومت کیلئے یہ مثبت ریفرنڈم سمجھا جارہا ہے۔ یہ حکمت عملی ملک کی قدیم تاریخی پارٹی کانگریس اور سیکولرازم کا دم بھرنے والی دیگر پارٹیوں کیلئے غور طلب ہے۔ ملک کے رائے دہندوں کی بدلتی رائے کے آگے ان پارٹیوں کو بھی اپنی پالیسیوں پر نظرثانی کرنے کی ضرورت ہے۔