امریکہ میں گن تشدد

کیوں آگ لگاتے پھرتے ہو جب گرم ہوا سے ڈرتے ہو
دل پہلے جلاکر خاک کیا اب ٹھنڈی آہیں بھرتے ہو
امریکہ میں گن تشدد
امریکہ میں گن تشدد سے معصوم بچوں اور شہریوں کی ہلاکتوں کا سلسلہ جاری ہے ۔ یہ تشدد برسوں بلکہ کئی دہوں سے ہورہا ہے ۔ خود کو سوپر پاور ملک کہلانے والے امریکہ نے اپنے شہریوں کو اس گن تشدد سے محفوظ رکھنے کا کوئی حتمی منصوبہ ، پالیسی یا پروگرام تیار نہیں کیا ۔ گذشتہ روز ٹیکساس کے ایک اسکول میں جب طالب علم اپنی کلاس سے نکل کر گن لہراتے ہوئے اندھا دھند فائرنگ کرتا ہے تو تعلیمی اداروں میں معصوم طلباء کے جان کے تحفظ کا مسئلہ سنگین دکھائی دیتا ہے ۔ اس سال 2018 سے اب تک امریکی اسکولوں اور یونیورسٹیوں میں گن تشدد کے 23 واقعات رونما ہوئے ہیں ۔ سب سے زیادہ ہلاکتیں فلوریڈا کے اسکول میں ہوئیں جہاں بندوق بردار نے عملہ اور بچوں کے بشمول 17 افراد کو ہلاک کیا تھا ۔ صرف چند ماہ میں ہی 133 فائرنگ کے واقعات ہوئے ہیں جس میں 195 افراد ہلاک اور 454 زخمی ہوئے ۔ صدر امریکہ ڈونالڈ ٹرمپ نے ٹیکساس کے اسکول میں ہوئی فائرنگ اور اموات پر صدمہ کا اظہار کیا اور عہد کیا کہ امریکی طلباء اور اسکولوں کو محفوظ رکھنے کے لیے ان کا نظم و نسق ہر ممکنہ کوشش کرے گا ۔ غور طلب امر یہ ہے کہ امریکہ میں 98 فیصد گن تشدد کے واقعات وہیں ہوتے ہیں جہاں بندوق کلچر پر پابندی ہے ۔ امریکہ کو گن کلچر سے پاک بنانے میں وائیٹ ہاوز نظم و نسق کی نیم دلانہ کارروائیوں نے ایک مہذب معاشرہ کو عدم تحفظ کا شکار بنادیا ہے ۔ امریکہ کے نیشنل انسٹنٹ کریمنل بیاگ گراونڈ چیک سسٹم کو سخت بنائے جانے کے باوجود ہتھیاروں کی فروخت ہورہی ہے تو یہ تشویشناک بات ہے ۔ اسٹیٹ و فیڈرل ایجنسیوں کو اس ماحول پر قابو پانے کے لیے سخت اقدامات کرنے ہوں گے ۔ امریکہ کی شہری زندگی اور سوسائٹی سے گن کلچر کو ختم کرنے کے لیے قوانین کو موثر بنانے پر توجہ دلائی جاتی رہی ہے اس حقیقت کے باوجود کہ قانون نافذ کرنے والے اداروں اور پولیس کی چوکسی برقرار ہے ، گن کلچر کو فروغ حاصل ہوتا جارہا ہے ۔ اس مسئلہ کا حل نکالنے کے لیے صرف چند ایک کوششیں کافی نہیں ہیں ۔ اس ملک کو ایک ٹھوس قانون سازی کی ضرورت ہے ۔ ایک ایسا قانون بنایا جائے جس کے تحت تمام شہریوں کو جن کے پاس ہتھیار ہیں انہیں خود سپرد کرنے کا پابند بنایا جائے ۔ ہر ملک کا اپنا قانون ہی شہریوں کی جان و مال کے تحفظ کے لیے کافی ہوتا ہے مگر امریکہ میں گن کلچر اور گن تشدد سے ظاہر ہوتا ہے کہ امریکی نظم و نسق اپنے ملک میں قانون نافذ کرنے میں ناکام ہے اور امریکہ سے باہر کی دنیا میں ہتھیاروں کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے عالمی پولیس کا رول ادا کرتا آرہا ہے ۔ اسکولوں کو بندوق سے لیس ہو کر آنے والے بچے نہ صرف اساتذہ کے لیے خطرناک ہوتے ہیں بلکہ اسکول طلباء کی زندگیوں کو خطرہ میں ڈالدیتی ہیں ۔ اسکولوں میں کلاس روم کے اندر ٹیچرس کے پاس بندوق رکھنے کی اجازت دینا اور انہیں ایک مسلح پولیس آفیسرس کے طور پر رول ادا کرنے کا پابند بنادینا مسئلہ کا حل نہیں ہے ۔ امریکی قانون سازوں کو اپنے ملک میں اس بندوق تشدد کو روکنے کے لیے عالمی طور پر طریقہ کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے ۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ بندوق کی خریداری ہی کو مشکل بنادیا جائے تو تشدد کے بڑھتے واقعات کو روکا جانے میں مدد ملے گی ۔ امریکہ کے قانونی اداروں اور پولیس رپورٹ کے مطابق گذشتہ 5 سال کے دوران اس ملک میں بڑے پیمانہ کی فائرنگ کے 1600 واقعات رونما ہوئے ہیں جن میں زیادہ تر اموات بچوں کی ہوتی ہیں ۔ صدر ڈونالڈ ٹرمپ کو ہر واقعہ کے بعد لچھے دار بیان دینے کی عادت ترک کر کے سخت قوانین نافذ کرتے ہوئے شہریوں کے تحفظ کو یقینی بنانے والے کام کرنے ہوں گے ۔ اسکولوں میں جب طلباء عدم سلامتی کے احساس سے دوچار ہوتے ہیں تو ان کے لیے ایک بہتر تعلیم حاصل کرنے کا جذبہ کمزور پڑ جائے گا ۔ جب معصوم بچے اپنی زندگیاں خوف کے بغیر گذارنے سے قاصر ہوں تو پھر اس کو انسانی حقوق کا سب سے بڑا بحران قرار دیا جاسکتا