امریکہ میں نسل پرستانہ حملوں اور جملوں پر اعتراض

ٹرمپ کے صدر بننے کے بعد حالات میں بگاڑ، مختلف شخصیتوں کا اظہارتشویش

حیدرآباد۔26فروری(سیاست نیوز) امریکہ میں ڈونالڈ ٹرمپ کے اقتدار سنبھالنے کے بعدنسل پرستانہ اور فرقہ پرستانہ حملوں میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے اور یہ حالات انتہائی تشویشناک صورتحال اختیار کرتے جا رہے ہیں۔ جاریہ ماہ دو ہندستانی نوجوانوں کو قتل کردیا گیااور دونوں کا تعلق ریاست تلنگانہ سے ہے۔ گذشتہ شب امریکی ریاست مسوری کے شہر کنساس میں حیدرآبادی نوجوان کے۔ سرینواس کو گولی مار دی گئی جبکہ جاریہ ماہ کے اوائل میں امریکی ریاست کیلیفورنیا کے شہر میلپیٹاس میں ورنگل سے تعلق رکھنے والے نوجوان طالبعلم ایم ومشی ریڈی کو گولی مار کر ہلاک کردیا گیا تھا۔ ڈونالڈ ٹرمپ کے انتخاب کے بعد سے پیداشدہ صورتحال کے متعلق فکرمند ہندستانیو ںکے تفکرات میں آج اس وقت مزید اضافہ ہوگیا جب کنساس میں امریکی شہری کی گولی کا شکار ہونے والے حیدرآبادی نوجوان کے۔سرینواس کی موت واقع ہوگئی اور اس بات کا انکشاف ہوا کہ حملہ آور نے نسل پرستانہ تشدد کا شکار بناتے ہوئے یہ کہا کہ ’’میرے ملک سے باہر چلے جاؤ‘‘ ۔ 32سالہ کے۔ سرینواس جن کا تعلق حیدرآباد سے ہے اور وہ کنساس میں یونیورسٹی آف میسوری میں ماسٹرس کے طالبعلم تھے جنہیں کل رات ایک بار میں نسل پرستانہ تشدد کا شکار بنایا گیا جس کے سبب ان کی موت واقع ہوگئی۔ اس حملہ میں ان کے ساتھی آلوک مدسانی موجود تھے ۔ متوفی کے۔ سرینواس کے علاوہ اس حملہ میں ایک سفید فام باشندہ بھی زخمی ہونے کی اطلاع ہے۔ اس نسل پرستانہ حملہ میں ملوث 51سالہ ایڈم پورینٹان کو فیڈرل پولیس نے گرفتار کرلیا ہے اور پوچھ تاچھ جاری ہے۔ ڈونالڈ ٹرمپ کے امریکی صدر بننے کے بعد نسلی تعصب رکھنے والوں کے حوصلوں میں اضافہ کے کئی واقعات منظر عام پر آنے لگے ہیں اور گذشتہ شب امریکی یونائیٹڈ ائیر لائنس کے طیار ہ میں ہندستانی و پاکستانی مرد و خاتون کو نسل پرستانہ جملوں کا سامنا کرنا پڑا جس کا ویڈیو وائرل ہو رہا ہے بتایا جاتا ہے کہ اس ویڈیومیں واضح طور پر یہ دکھایا گیا ہے کہ جب مسلم جوڑا اپنا سامان رکھنے کی کوشش کررہا تھا تو ان سے ساتھی مسافر نے طنزیہ دریافت کیا کہ ’’ان کے بیاگ میں بم تو نہیں ہے‘‘؟ مسافر کے اس جملہ کو ابتدا ء میں تو اس جوڑے نے نظرانداز کیا لیکن اس کے بعد مسلسل اس طرح کے جملے کسے جانے پر ایک اور ساتھی مسافر نے قابل اعتراض جملوں کسے جانے کی طیارہ کے عملہ سے شکایت کی۔ شکاگو سے ہیوسٹن (ٹیکساس) جانے والی پرواز پر پیش آئے اس واقعہ کی عملہ سے شکایت اور دیگر مسافرین کے ان نسل پرستانہ جملوں پر اعتراض کئے جانے کے دو مسافرین کو عملہ نے طیارہ سے اتار دیا جس کے فوری بعد مسافرین نے کہا کہ یہ ٹرمپ کا امریکہ نہیں ہے اور نہ ہی اس طرح کے نسل پرستانہ حملوں کی گنجائش ہے۔ 12فروری کو ورنگل کے نوجوان پر حملہ اور اس کی موت کے بعد اب حیدرآباد کے نوجوان کی نسل پرستانہ حملہ میں موت کے علاوہ نسل پرستانہ جملوں کے کسے جانے کے واقعات کے سبب امریکہ میں تعلیم حاصل کر رہے نوجوانوں کے والدین اور سرپرستوں میں بے چینی کی کیفیت پیدا ہونے لگی ہے۔محمد حسام الدین صدیقی فضل نے بتایا کہ ان کے فرزند محمد عظیم الدین صدیقی پرویز امریکہ میں تعلیم حاصل کر رہے ہیں اور اس طرح کی اطلاعات ان کے اور دیگر افراد خاندان کیلئے باعث تشویش بنتی جا رہی ہیں انہوں نے ہندستانی وزارت خارجہ سے خواہش کی کہ وہ سفارتی سطح پر مذاکرات کے ذریعہ امریکہ میں تعلیم حاصل کررہے نوجوانوں کے مستقبل اور ان کی زندگیوں کے تحفظ کو ممکن بنائیں۔ جناب محمد حسام الدین صدیقی نے کہا کہ امریکی حکومت کو بھی چاہئے کہ وہ فوری طور پر حالات کو بہتر بنانے کے لئے ایسے فیصلوں سے اجتناب کرے جو نسل پرستانہ یا فرقہ پرستانہ ماحول کو فروغ دینے کا سبب بنتے ہوں۔امریکی قونصل خانہ متعینہ حیدرآباد نے کے۔سرینواس کی موت پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ امریکی نظام عدلیہ سے متوفی نوجوان کے لواحقین کو انصاف حاصل ہوگا۔