غبار آلودۂ نام و نسب ہیں بال و پر تیرے
تو اے مرغ حرم اڑنے سے پہلے پرفشاں ہوجا
امریکہ میں نسلی تشدد
امریکہ ساری دنیا میں انسانی حقوق ‘ جمہوری اقدار اور دبے کچلے افراد کو ان کا مقام دینے کیلئے جدوجہد کرنے کے معاملہ میں خود معلنہ چمپئن ہے ۔ وہ دنیا کے کسی بھی کونے میں حقوق انسانی کی خلاف ورزیوں کا بہانہ کرتے ہوئے وہاں مقامی حالات میں مداخلت کرتا ہے اور اپنے عزائم و مقاصد کی تکمیل کرلیتا ہے ۔ سری لنکا میں ٹامل عوام کے حقوق کے تعلق سے دباؤ کی حکمت عملی اختیار کرتے ہوئے وہاں اپنے عزائم پورے کئے ۔ عراق و شام میں یزیدی فرقہ پر مظالم کا عذر پیش کرتے ہوئے وہاں اپنے مقاصدکی تکمیل کی لیکن حالیہ عرصہ میں خود امریکہ میں نسلی امتیاز اور تشدد کے واقعات میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے ۔ نسل پرستی اور کالے و گورے کے درمیان نفرت کے ماحول کی وجہ سے امریکہ میں حالیہ عرصہ میں کئی انسانی جانوں کا اتلاف بھی ہوا ہے ۔ وقفہ وقفہ سے کسی نہ کسی شہر میں کسی نہ کسی ریاست میں اکثر و بیشتر تعلیمی اداروں میں فائرنگ کے واقعات پیش آتے رہتے ہیں جہاں معصوم و بے گناہ افراد کو نشانہ بنایا جاتا ہے ۔ اب پہلی مرتبہ یہاں ایک چرچ کو نشانہ بناتے ہوئے بہیمانہ اور انسانیت سوز کارروائی کرتے ہوئے ایک سفید فام نوجوان نے سیاہ فام افراد کو موت کی نیند سلادیا ۔ اس نے یہ فائرنگ کرنے سے قبل ایک گھنٹہ تک چرچ کے دعائیہ اجتماع میں حصہ لیا ۔ وہ اچانک اٹھ کھڑا ہوا اور اس نے اعلان کیا کہ وہ وہاں سیاہ فام باشندوں کو ہلاک کرنے آیا ہے ۔ اس نے فائرنگ کردی جس کے نتیجہ میں 9 افراد بشمول چرچ کا پادری ہلاک ہوگئے ۔ مہلوکین میں چھ خواتین شامل ہیں۔ یہ امریکہ میں پیش آنے والے نسلی امتیاز و تشدد کے واقعات میں سب سے سنگین اور تازہ ترین واقعہ ہے ۔ یہ واقعہ در اصل امریکی سماج و معاشرہ میں پائی جانے والی نسل پرستی کی روایت کا پتہ چلتا ہے جو گذرتے وقت کے ساتھ بڑھتی جا رہی ہے ۔ گذشتہ دنوں سفید فام پولیس اہلکاروں کی جانب سے سیاہ فام نوجوانوں کو کسی نہ کسی بہانہ سے گولی مار کر ہلاک کرنے کے واقعات میں بھی اضافہ ہوا ہے ۔ حالانکہ امریکہ میں اس طرح کے واقعات پہلے بہت کم ہوا کرتے تھے لیکن اب ان میں اضافہ ہوگیا ہے جس سے پتہ چلتا ہے کہ یہاں نوجوان برادری عدم اطمینان کا شکار ہے اور وہ معاشرہ کی موجودہ ہئیت ترکیبی سے خوش اور مطمئن نہیں ہے ۔
یہی وہ غیر مطمئن لوگ ہیں جو معصوم افراد کو موت کے گھاٹ اتارنے میں کوئی عار محسوس نہیں کرتے ۔ زیادہ تشویش اور فکر کی بات یہ ہے کہ ایسی فائرنگ کرنے والے اکثر و بیشتر ملزمین نوجوان ہوتے ہیں۔ اگر نوجوان اس قدر شدید ذہنی نفرت اور نسل پرستی کا شکار ہوجائیں تو مستقبل کے حوالے سے کسی طرح کی امیدیں وابستہ کرنا مشکل ہوجائیگا ۔ دنیا بھر میں پولیسنگ کرنے والا امریکہ خود اپنے سماج اور معاشرہ میں پھیلی بے چینی اور بد امنی کو دو ر کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکا ہے اور وہاں قتل و خون کا بازار مسلسل گرم ہوتا جا رہا ہے ۔ ایک پہلو یہ بھی ہے کہ اس طرح کے حملوں کو نسلی امتیاز یا نفرت پر مبنی جرم قرار دے کر بھی اس کی اہمیت کو گھٹانے کی کوشش کی جاتی ہے لیکن ایسے جرائم کو اور ایسے حملوں کو دہشت گردانہ کارروائی قرار دئے جانے کی ضرورت ہے ۔ دہشت گردی کے خلاف دنیا بھر میں ماحول گرم کرنے والا امریکہ خود دہشت گردوں کا ملک بنتا جا رہا ہے اور اس کے ہی نوجوان قتل و خون میں راحت و سکون محسوس کرنے لگے ہیں تو یہ امریکہ کیلئے تشویش کی بات ہے ۔ امریکہ معاشرہ میںجس سکون اور اطمینان کا فقدان ہے وہاں صرف نسلی امتیاز ہی فروغ پاسکتا ہے ۔ دنیا بھر میں امریکہ اسی طرح کے حربے اختیار کرتے ہوئے اپنے عزائم و مقاصد کی تکمیل کرنے میں جٹا ہو اہے اور اس کا اپنا گھر بھی اب اس سے بچ نہیں پا رہا ہے ۔ سیاہ فام افراد کے خلاف ویسے بھی امریکہ میں نفرت کا ماحول شدید تھا لیکن حالیہ عرصہ میں یہ بہت زیادہ ہوگیا ہے ۔ اب تو امریکہ کے پولیس اہلکار بھی نفرت پر مبنی جرائم کا ارتکاب کرنے لگے ہیں۔
گذشتہ دنوں بالٹی مور میں اسی طرح کے واقعہ کی وجہ سے ہنگامہ کھڑا ہوگیا تھا ۔ کئی دن تک یہاں احتجاج کیا جا تا رہا ہے لیکن ایک دو واقعات کے خلاف کارروائی کرتے ہوئے اس سارے مسئلہ سے چھٹکارہ حاصل نہیں کیا جاسکتا ۔ اس کیلئے سماج اور معاشرہ میں ایک مہم چلانے کی ضرورت ہے ۔ خود کو مہذب دنیا کے تمغے دینے والے ملک میں ہر چند دن میں اس طرح کے واقعات کا پیش آنا اس کے منہ پر طمانچہ سے کم نہیں ہے ۔ معصوم و بے گناہ افراد کو قتل کیا جا رہا ہے لیکن ایسے حملہ آوروں کو دہشت گرد قرار دینے سے بھی گریز کیا جاتا ہے ۔ یہ امریکی سماج اور عالمی ذرائع ابلاغ کی بھی جانبداری ہے ۔ بے گناہوں کا خون بہانے والوں کو دہشت گرد قرار دیتے ہوئے ان کے خلاف سخت اور سنگین دفعات کے تحت کارروائی کرتے ہوئے کیفر کردار تک پہونچانا ضروری ہے تاکہ دوسروں کیلئے ایک مثال قائم ہوسکے ۔