امریکہ میں مرس وائرس سے متاثرہ پہلے کیس کی تصدیق

واشنگٹن ۔ /3 مئی (سیاست ڈاٹ کام) امریکہ میں محکمہ صحت کے حکام نے مشرق وسطیٰ میں دو سال قبل پھیلنے والے مہلک وائرس مڈل ایسٹ ریسپائیریٹری سینڈروم (مرس) کے ایک مریض میں پائے جانے کی تصدیق کردی ہے اور امریکا میں یہ مرس کا پہلا کیس ہے۔امریکہ کے مراکز برائے انسداد امراض (سی ڈی سی) نے بتایا ہے کہ ریاست انڈیانا سے تعلق رکھنے والا ایک شخص مرس وائرس سے متاثر ہوا ہے۔اب سی ڈی سی اور محکمہ صحت کے حکام اس کی مزید تحقیقات کررہے ہیں۔وفاقی صحت حکام نے جمعہ کو بتایا ہے کہ مرس سے متاثرہ شخص ایک ہیلتھ ورکر ہے اور وہ حال ہی میں سعودی عرب سے امریکا لوٹا ہے۔اس وقت وہ انڈیانا کے ایک اسپتال میں زیرعلاج ہے،

اسے الگ تھلگ رکھا گیا ہے اور آکسیجن دی جارہی ہے۔تاہم اس کی حالت خطرے سے باہر ہے۔امریکی حکام نے اس مریض کا نام ،عمر اور حقیقی پیشہ نہیں بتایا ہے۔مراکز برائے انسداد امراض میں سانس کی بیماریوں کی ڈائریکٹر ڈاکٹر این شوشت کا کہنا ہے کہ امریکا میں مرس وائرس کا یہ واحد کیس بہت کم خطرے کا عکاس ہے اور سی ڈی سی ایسی کوئی سفارش نہیں کررہا ہے کہ مشرق وسطیٰ جانے والے حضرات اپنے سفری پلان میں کوئی تبدیلی کرلیں۔سی ڈی سی کے ترجمان ٹام اسکنر نے بتایا ہے کہ اس مریض کے مرس وائرس کا شکار ہونے کی مکمل تحقیقات کے لیے ایک ٹیم انڈیانا بھیجنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔

اس امریکی کے بارے میں حکام نے مزید بتایا ہے کہ وہ سعودی دارالحکومت الریاض سے 24 اپریل کو براست لندن پرواز کے ذریعے شکاگو پہنچا تھا اور پھر وہ بس کے ذریعے انڈیانا گیا تھا۔وہ 27 اپریل کو بیمار پڑا تھا اور اس سے اگلے روز اس کو اسپتال میں داخل کرادیا گیا تھا۔علامات ،علاج، احتیاطی تدابیرطبی ماہرین کا کہنا ہے کہ مرس وائرس اوّل اوّل چمگادڑوں اور اس کے بعد ممکنہ طور پر اونٹوں سے انسانوں میں منتقل ہوا تھا۔البتہ بعض ماہرین نے اب تک کی تحقیقات کی روشنی میں یہ شبہ ظاہر کیا ہے کہ یہ وائرس اونٹنی کے خام دودھ اور گوشت سے انسانوں میں منتقل ہوا ہے۔چنانچہ سعودی حکومت نے گذشتہ منگل کو شہریوں کو ہدایت کی تھی کہ وہ اونٹوں کے قریب جانے،ان کا دودھ اور اس سے بنی اشیاء￿ کے استعمال سے گریز کریں اور اونٹ کا گوشت بھی نہ کھائیں۔مرس یا این کوو یا ناول کورنا وائرس (این کوو) وائرسوں کے اسی خاندان سے تعلق رکھتا ہے جن کے نتیجے میں متاثرہ شخص کو شدید سردی لگتی ہے۔بخار اور سانس لینے میں دشواری اس کی نمایاں علامات ہیں۔یہ مریض نمونیے کی بھی نشاندہی کرتی ہیں لیکن بعض کیسوں میں مختلف علامات بھی ظاہر ہوئی ہیں۔عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او ) نے سفارش کی ہے کہ مشرق وسطیٰ سے آنے والے کسی بھِی شخص کے چودہ دن کے اندر ٹیسٹ کیے جائیں۔

اب تک اس کا کوئی علاج دریافت ہوا ہے اور نہ کوئی ویکسین تیار کی گئی ہے۔البتہ مریضوں کو مصنوعی تنفس (وینٹی لیٹرز) پر رکھا جاسکتا ہے اور انھیں دوسری بیکٹریل بیماریوں سے بچانے کے لیے اینٹی بائیوٹکس دوائیں دی جاسکتی ہیں تاکہ ان کا مدافعتی نظام مضبوط ہوکر اس وائرس کو آہستہ آہستہ شکست سے دوچار کردے۔اب عالمی ادارہ صحت کے ماہرین اس بات کی بھی تحقیقات کررہے ہیں کہ یہ وائرس بستر کی چادروں اور اسپتال کے آلات میں کتنی دیر تک زندہ رہ سکتا ہے۔اس کے علاوہ جن اسپتالوں میں مرس وائرس کا شکار مریض زیر علاج ہیں،ان کے عملے کو ہدایت کی گئی ہے کہ وہ چہرے پر ماسک اور ہاتھوں پر دستانے پہنیں اور گاؤن اوڑھ کر رکھیں۔مرس وائرس 2012ء￿ میں سعودی عرب میں پہلی مرتبہ پھیلا تھا اور پھر یہ مشرق وسطیٰ کے دوسرے ممالک میں پہنچا تھا۔سعودی عرب میں اب تک اس کے چار سو کیسوں کی تصدیق ہوچکی ہے اور اس سے متاثرہ کم سے کم ایک سو دس افراد جان کی بازی ہار چکے ہیں۔سعودی عرب کے علاوہ ابوظہبی اور متحدہ عرب امارات میں حالیہ ہفتوں کے دوران زیادہ کیس سامنے آئے ہیں اور مصر میں بھی اگلے روز اس کے پہلے کیس کی تصدیق ہوئی ہے۔اردن ،سلطنت آف اومان ،کویت اور تیونس اور بعض یورپی ممالک میں بھی اس وائرس کے پائے جانے کی تصدیق ہوچکی ہے۔