امریکہ کے باشندے جن سے میری ملاقات رہی، میں نے ان کو نرم مزاج، ہمدرد، اہل اسلام سے متعلق نرم گوشہ رکھنے والا اور اسلام کے بارے میں تردد کا شکار پایا۔ ان کو ہمیشہ اسلام کے حقیقی پیغام و فکر کو جاننے کی جستجو رہتی ہے، وہ بڑے کھلا ذہن رکھنے والے ہوتے ہیں، دوسرے مذہب اور اس کے بانی کے بارے میں معلومات حاصل کرنے میں کوشاں رہتے ہیں، اس لئے مجھے فکر ہوتی ہے کہ کسی نہ کسی بہانے مقامی افراد کو مسجد یا کسی اسلامی پروگرام میں مدعو کیا جائے اور ان کے سامنے اسلام کی حقیقی تصویر پیش کی جائے، تاکہ ان کے دلوں میں اسلام سے متعلق پیدا ہونے والی غلط فہمیوں کا ازالہ ہو۔
آج سارا محاذ اسلام کے خلاف ہے، مشرق وسطی کے احوال قیامت خیز ہیں، مسلم حکمرانوں کے ہاتھوں بے قصور شہریوں کی ہلاکت و بربادی، نام نہاد دہشت گرد تنظیموں کی وحشیانہ کارروائیاں، دنیا کے طول و عرض میں اسلام اور اہل اسلام کے لئے نہایت نقصاندہ ثابت ہو رہی ہیں۔ اس پر مستزاد میڈیا کی زہر افشانی عروج پر ہے۔ اسلام دشمن طاقتیں اپنے ناپاک عزائم و منصوبوں میں بڑی آسانی سے کامیاب ہو رہی ہیں۔ جب کبھی کہیں اسلام اور مسلمانوں سے متعلق ہمدردی کی لہر پیدا ہوئی ہے، کچھ نہ کچھ نام نہاد مسلمانوں کی جانب سے تخریبی کارروائیاں وقوع پزیر ہو جاتی ہیں، جو مزید نفرت و عداوت کا باعث بن جاتی ہیں۔ حالیہ عرصہ میں امریکہ کے کیلیفورنیا اور سان برناڈنو میں ہوئے شوٹنگ کے واقعات نے مسلمانوں کے لئے امریکہ میں بڑی مشکلات پیدا کردی ہیں۔
اسلام سے متعلق نفرت و عداوت کا اندازہ آپ اس بات سے بآسانی لگا سکتے ہیں کہ امریکہ جیسا ملک جہاں درحقیقت دنیا کے ہر ملک کے اعلی دماغ و قابل لوگ موجود ہیں، جو درحقیقت مہاجرین کا ایک بڑا مرکز ہے، جس کا دستور ہر مذہب، رنگ و نسل، قوم کے تحفظ کا حامی و مؤید ہے، جس کے حقیقی باشندے ’’تنوع کی خوبصورتی‘‘ پر فخر و ناز کرتے ہیں۔
اس ملک میں اس سال کے اواخر میں منعقد ہونے والے انتخابات میں ریپبلکن پارٹی کے صدارتی امیدوار ڈونالڈ ٹرمپ کے اسلام اور اہل اسلام کے خلاف ببانگ دہل نفرت اور اشتعال انگیز تبصرے حیران کن ہیں۔ ساری دنیا میں جمہوریت کی دہائی دینے والے ملک ’’امریکہ‘‘ کے صدارتی امیدوار کی دوڑ میں شامل ارب پتی ڈونالڈ ٹرمپ کے سیاسی بیانات، امریکہ میں اسلام سے متعلق پائی جانے والی نفرت و عداوت اور دشمنی کی غماز ہیں، جس نے علی الاعلاان امریکہ میں مسلمانوں کے داخلہ پر مکمل پابندی کا مطالبہ کیا ہے، جس کی وجہ سے مسلمان بڑے فکرمند ہو گئے اور اپنی اولاد کے مستقبل کے بارے میں تشویش کے شکار ہیں۔ مجھ سے ملنے والے امریکی باشندے کہنے لگے کہ یہ وقت ہے کہ مسلمان کھڑے ہوں اور وہ امریکہ کے عوام کو بتائیں کہ ’’تم لوگ حقیقت میں کون ہو؟‘‘۔ وہ کہنے لگے کہ ہمیں پتہ ہے کہ مسلمان اچھی قوم ہے، لیکن میڈیا سارے امریکیوں کے ذہنوں کو زہر آلود کرچکا ہے۔
ٹرمپ کے اسلام اور مسلمانوں کے خلاف مسلسل بیانات سے مجھے شخصی طورپر بڑی اہانت و بے عزتی محسوس ہوئی۔ اس کے ریمارکس بعض مخصوص مسلمانوں اور ان کی شدت پسند نظریات کے خلاف نہیں ہیں، وہ سارے مسلمانوں کو ایک ہی نظر سے دیکھ رہا ہے۔
وہ درحقیقت ہمارے نبی، قرآن، بلکہ خدائے ذوالجلال کی شان میں بھی بے ادبی کر رہا ہے۔ میرا دل کہتا ہے کہ اللہ تعالی کو تکبر و غرور قطعاً پسند نہیں، مغرور و متکبر بہت جلد زوال پزیر ہوتے ہیں اور دنیا والوں کے لئے عبرت بن جاتے ہیں۔ مجھے یقین ہے کہ بہت جلد وہ رسوا ہوگا اور اگر بالفرض وہ اقتدار کے زینہ تک پہنچ بھی جائے تو وہ ضرور موت سے قبل اپنے رسوا کن اور عبرتناک انجام کو دیکھے گا۔ جس قوم کا کارساز خدائے ذوالجلال ہو، ساری کائنات کا تنہا بادشاہ ہو، اس قوم کو ایسے بیانات سے زیادہ فکرمند ہونے کی ضرورت نہیں۔ کبریائی اور بڑائی صرف اور صرف اللہ سبحانہ و تعالی کو سزاوار ہے۔ چنانچہ ارشاد باری تعالی ہے: ’’اور اسی کے لئے آسمانوں اور زمین میں بڑائی ہے اور وہی غالب حکمت والا ہے‘‘۔ (سورۃ الجاثیہ۔۳۷)
اللہ تعالی تکبر و غرور کو پسند نہیں فرماتا۔ کائنات میں خدا کی سب سے پہلے نافرمانی اور معصیت غرور و تکبر کی بناء پر ہوئی، جب ابلیس نے حضرت آدم علیہ السلام کو سجدہ کرنے حکم خداوندی کے مقابل میں تکبر کیا اور خود کو باعزت جانا تو ہمیشہ کے لئے راندۂ درگاہ ہو گیا۔
حضرت لقمان حکیم اپنے فرزند کو نصیحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں، جس کو قرآن مجید نے قیامت تک کے لئے محفوظ کردیا ہے۔ ارشاد ہوتا ہے: ’’تو لوگوں کی طرف اپنے گال کو مت پھلا اور زمین پر اتراتا مت چل، یقیناً اللہ تعالی اترانے والے، برائیاں کرنے والے کو پسند نہیں فرماتا‘‘۔ (سورۂ لقمان۔۱۸)
حضرت نوح علیہ السلام نے جب کبھی اپنی قوم کو اللہ کی طرف بلایا تو اس قوم نے اپنے کانوں میں انگلیوں کو رکھ لیا اور اپنے کپڑے لپیٹنے لگے۔ انھوں نے ہٹ دھرمی اور خوب خوب تکبر کیا (سورہ نوح۔۷) اس فخر و غرور کا نتیجہ یہ ہوا کہ اللہ تعالی نے ساری قوم کو طوفان میں ہلاک و برباد کردیا اور دنیا والوں کے لئے وہ ایک بھلائے جانے والے سبق بن گئے۔
قوم عاد کے بارے میں ارشاد الہی ہے: ’’اب رہی قوم عاد! انھوں نے زمین میں ناحق تکبر کیا اور کہا کہ ہم سے بڑھ کر طاقت والا کون ہے‘‘ (حم السجدہ۔۱۵) نتیجہ میں اللہ تعالی نے ان پر سات رات آٹھ دن آندھی طوفان بھیجا اور پوری قوم کا نام و نشان ختم ہو گیا۔
آج وہ ممالک جو اپنی طاقت و قوت پر نازاں و مغرور ہیں اور اپنے اقتدار کے لئے بے قصور رعایا پر ظلم و ستم کر رہے ہیں، وہ ضرور اس دنیا میں رسوا ہوں گے اور آخرت میں ان کے لئے اہانت آمیز عذاب ہوگا۔ ارشاد الہی ہے: ’’کہا جائے گا تم جہنم کے دروازوں میں داخل ہو جاؤ، اس میں ہمیشہ ہمیشہ رہو گے، تکبر کرنے والوں کا کیا ہی برا ٹھکانہ ہے‘‘۔ (سورۃ الزمر۔۷۲)
فرعون کی موروثی حکومت، قانون کے خزانے اور علم ان کو عذاب الہی سے نہ بچاسکے تو اگر کوئی ارب پتی آج اپنی دولت پر نازاں و مغرور ہو تو اس کے بارے میں فکرمند ہونے کی ضرورت نہیں، اس نے اسلام کو نہیں بلکہ خدائے ذوالجلال کو للکارا ہے۔