فلسطین کی تاریخ میںیہ پہلا موقع ہے جب وہاں کے مظلوم عوام کی آواز میںآوازملانے کے لئے ملت مسلمہ ایک آوازمیں بول رہی ہے۔ دنیا کے گوشے گوشے میں رہنے والے مسلمان بلاتفریق مسلک ومکتب امریکہ کے اس مذموم فیصلے کے خلاف احتجاج کررہے ہیں۔ جس کے تحت اس نے یروشلم کو صیہونی ریاست کا درالحکومت تسلیم کرکے اپنا سفارت خانہ وہاں قائم کرنے کا فیصلہ کیاہے۔ خوشی کی بات یہ ہے کہ ٹرمپ کے فیصلے پر باراضگی کا اظہار کرنے کے لئے دنیا کے سامنے اس حقیقت کو پیش کرنے کے لئے یروشلم مسلمانوں کے لئے اس قدر اہم ہے‘ مسلم ممالک کی سب سے بڑی جماعت‘ اسلامی تعاون تنظیم کے 57اراکین ایک خاص اجلاس میں ترکی کے سب سے بڑے شہر استنبول میںیکجا ہوئے ہیں ۔
جن میں22سربراہان مملکت شامل ہیں۔ اس کانفرنس کا اہتمام کرنے سب سے ہم کردار ترکی کے صدر رجب طیب اردغان نے ادا کیاہے۔ ویسے اس کی تو کوئی امید نہیں تھی کہ اسلامی تعان تنظیم یہ اجلاس کانفرنس امریکہ کے صدر کو اپنا فیصلہ واپس لینے پر مجبور کرسکے گا‘لیکن یہ جان کر ساری دنیا کے مسلمانوں کو سکون ملا ہوگا او ائی سی نے بہت جرات مندانہ فیصلہ کرتے ہوئے مشرقییروشلم کو فلسطین کی راجدھانی تسلیم کرنے کا اعلان کردیا۔
او ائی سی کی جانب سے اس قسم کے اعلان کی توقع کسی کو نہیں تھی لیکن اس سے کم کا توکوئی راستہ اس کے پاس نہیں تھا اور یہ اعلان اس بات کا غماز ہے کہ فلسطین کی جدوجہد پر اب قومیت کا لیبل نہیں لگا ہے اور اب اسرائیل کی مخالفت صرف گنے چنے ممالک تک محدود نہیں ہے بلکہ یہ مسئلہ عالم اسلام کا مسئلہ بن گیا ہے ۔اب فلسطینیوں کے ساتھ ساری دنیا کے مسلمان جذباتی طور ہر یہ جڑ گئے ہیں۔ اب اسرائیل کے خلاف مٹھی بھر جیالے ہی نہیں بلکہ دنیا بھر کے مسلمان اس لڑائی میں ذہنی طورپر شامل ہیں ‘ کیونکہ اب یہ لڑائی اسلام او ر صیہونت کے درمیان کی جنگ بن گئی ہے ۔
غزہ او رمغربی کنارے پر جس نے رحمی اورشقاوت کے ساتھ اسرائیل نے فلسطین کے مسلمانوں کا لگاتا ر خون بہایا ہے اس کے ویڈیو دنیا بھر کے مسلمان دیکھ رہے ہیں ۔ وہ جانتے ہیں کہ ان کے بھائیوں کو خون کون بہارہا ہے ۔ بھلے ہی کچھ مسلم ملکوں کے سربراہان مملکت امریکہ کی محبت میں اسرائیل کے ظالم وجابر حکمرانوں سے نفرت کرتے ہیں اور دنیا کے دو ر دراز مقاما ت پر رہنے والے مسلمان بھی اس بات کو مسلسل دوہراتے ہیں کہ وہ یروشلم سے کبھی دستبردار نہیں ہوں گے کیونکہ وہ ان کا قبلہ اول ہے اور اسی شہر کی مسجد اقصی کو ببات کی فضلیت حاصل ہے کہ قرآن میں اس کانام لے کر کہاگیا ہے کہ شب معراج اللہ اپنے رسوم کو مسجد الحرام سے مسجد اقصیٰ تک لے گیا۔
جس مسجد کا قرآن میں ذکر ہو اس سے مسلمان کس طرح دستبردار ہوسکتے ہیں؟مسلمانوں کے اسی غم وغصہ کے اظہار کے لئے استنبول میں او ائی سی کی جو کانفرنس ہورہی ہے اس سے کم سے کم اتنا پیغام تودنیا میں ضرور جائے گاک امریکہ اور اسرائیل یہ نہ سمجھیں کہ وہ مشرقی وسطی میں من مانی کرتے رہیں گے او رمسلمان خامو ش تماشائی بیٹھے رہیں گے۔ دلچسپ بات تو یہ ہے کہ اسرائیل کے ایک بڑے اخبار یروشلم پوسٹ نے مسلمانو ں کے غم وغصہ کا مذاق اڑاتے ہوئے لکھا ہے کہ اس کانفرنس کا جذباتی استحصال کرکے ترکی صدر رجب طیب اردغان مسلمانوں کے عالمی لیڈر بنے کی کوشش کررہے ہیں۔
بھلے ہی اسرائیلی پریس اردغان کامذاق اڑائے مگر عین ممکن ہے کہ اب ترکی کوعالم اسلامم کی سیاست میں قائدانہ کردار ادا کرنا پڑے۔ آخر میں کہتا چلو ں کے امت مسلمہ کو متحد کرنے کے لئے مسجد اقصیٰ سے بہتر پلیٹ فارم کوئی نہیں ہے‘لیکن اسلامی اتحاد کی بنیاد اس وقت مستحکم ہوگی جب ترکی واقع اسرائیل کے سفارت خانہ بند کرے اور مصرکے ساتھ اردن بھی اسرائیل سے اپنے سفارتی تعلقات ختم کرلے
۔د وسری ضرورت اس بات کی ہے کہ حماس اور حزب اللہ کو تمام مسلم ممالک مل کر مسلح کریں کیونکہ یہ دونوں تنظیمیں اسرائیل کو دھول چٹاسکتی ہیں۔ حالانکہ سب سے بہتر تو یہ ہوتا کہ سعودی عرب جو 34ممالک کی فوج بنائی ہے وہ اسرائیل کی ریاستی دہشت گردی کا مقابلہ کرنے کے میدان میں اترتی۔