شمالی کوریا کو روکنے امریکہ کے پاس دیگر متبادل بھی موجود تاہم پرامن مہم کو اولین ترجیح، اخباری نمائندوں سے بات چیت
واشنگٹن۔ 2 اگست (سیاست ڈاٹ کام) امریکی وزیر خارجہ ریکس ٹلرسن نے آج ایک اہم بیان دیتے ہوئے کہا کہ امریکہ، شمالی کوریا میں قیادت کی تبدیلی کا خواہاں نہیں بلکہ وہ چین کے ساتھ بھی کام کرنا چاہتا ہے تاکہ اس کو (شمالی کوریا) نیوکلیئر ہتھیار سازی سے باز رکھا جاسکے۔ یاد رہے کہ ٹلرسن کے ریمارکس ایک ایسے وقت سامنے آئے ہیں جب امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے حالیہ دنوں میں کہا تھا کہ چین، شمالی کوریا کو بالسٹک میزائلس ٹسٹ اور نیوکلیئر ہتھیار سازی سے روکنے کے موثر اقدامات نہیں کررہا ہے۔ اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ میں اخباری نمائندوں سے بات کرتے ہوئے ٹلرسن نے وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ شمالی کوریا سے متعلق ہم نے اپنے موقف کو کبھی خفیہ نہیں رکھا۔ بین براعظمی بالسٹک میزائلس ٹسٹ کرنے کا سلسلہ شمالی کوریا نے جاری رکھا ہے اور اب تو وہ یہ کہہ کر بھی امریکہ کو آنکھیں دکھا رہا ہے کہ میزائل کی زد میں نیویارک شہر بھی ہے لیکن اس کے باوجود ہم شمالی کوریا میں قیادت کی تبدیلی نہیں چاہتے اور نہ ہی وہاں امریکی فوج بھیجنے کیلئے کسی جواز کی تلاش میں ہیں۔ ہم شمالی کوریا کی قیادت اور عوام سے صرف یہ کہنا چاہتے ہیں کہ ہم آپ کے دشمن نہیں اور نہ ہی ہمارے (امریکہ) وجود سے آپ کو خطرہ ہے لیکن یہاں معاملہ برعکس ہے۔ شمالی کوریا کچھ ایسے اقدامات کررہا ہے جس سے امریکہ کو خطرہ لاحق ہوگیا ہے جو یقینی طور پر امریکہ کیلئے ناقابل قبول ہے ار جب پانی سَر سے اونچا ہوجائے تو ڈوبنے والا ہاتھ پاؤں تو چلائے گا ہی! لہذا امریکہ کا شمالی کوریا کو ردعمل ظاہر کرنا ایک فطری بات ہے۔ انہوں نے کہا کہ شمالی کوریا کی قیادت اور عوام کو یہ بات سمجھنے کی ضرورت ہے کہ امریکہ خود ان کے ساتھ بات چیت کرنے تیار ہے جو شمالی کوریا کے مستقبل کیلئے بہتر ہوگا۔ امریکہ ہی شمالی کوریا کو درکار سکیورٹی فراہم کرسکتا ہے جس کی وجہ سے ملک معاشی طور پر بھی خوشحال ہوگا۔
ٹلرسن نے کہا کہ کوئی بھی ملک صرف اور صرف دفاعی توانائی کی جانب توجہ دیتے ہوئے خود کو مستحکم نہیں کرسکتا بلکہ اسے دیگر ممالک کی سکیورٹی کے بارے میں بھی سوچنا چاہئے۔ امریکہ کو ہمیشہ ایک ہوا بناکر پیش کیا جاتا ہے جبکہ حقیقت یہ ہے کہ امریکہ ہمیشہ دیگر ممالک کے بارے میں مثبت رائے رکھتا ہے۔ انہوں نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا کہ شمالی کوریا پر دباؤ کا سلسلہ جاری رکھا جائے گا تاکہ اس کی سمجھ میں یہ بات آجائے، بصورت دیگر ہمارے پاس جو دوسرا متبادل ہے وہ پرکشش نہیں ہے۔ ٹلرسن کا اشارہ فوجی کارروائی کی جانب تھا جو یقیناً امریکہ کی ترجیحات میں شامل نہیں۔ ڈونالڈ ٹرمپ نے جب سے اقتدار سنبھالا ہے۔ شمالی کوریا ایسا پہلا ملک ہے جس نے ٹرمپ انتظامیہ کو چوکس کردیا ہے۔ ٹلرسن نے کہا کہ شمالی کوریا سے متعلق ہمیں جن خطرات کا اندیشہ تھا، اس نے بالکل اسی انداز میں کام کیا ہے۔ قبل ازیں ٹرمپ انتظامیہ نے بھی شمالی کوریا معاملہ کو انتہائی ارجنٹ قرار دیا تھا لیکن اس کے لئے شمالی کوریا کو ہی ذمہ دار ٹھہرایا جانا چاہئے کہ اس نے امریکہ کو یہ باور کروایا کہ یہ معاملہ واقعتاً ارجنٹ ہے۔ ہم نے شمالی کوریا کو اب تک پرامن انداز میں ہی سمجھانے کی کوشش کی ہے اور اسے ہم نے اپنی ’’پرامن مہم‘‘ سے تعبیر کیا ہے، حالانکہ ہمارے پاس دیگر متبادل بھی موجود رہیں تاہم ہم شمالی کوریا سے یہی کہتے آرہے ہیں کہ ہمارا دباؤ پرامن ہے اور ہم اس پر عمل پیرا رہیں گے اور یہی ہماری ترجیحات میں شامل ہے۔ آج کوئی بھی ملک جنگ کا متحمل نہیں ہوسکتا۔ مشرق وسطیٰ ہمارے سامنے ہے، البتہ ٹرمپ انتظامیہ اس بات کا خواہاں ہے کہ چین بھی امریکہ کے شانہ بشانہ شمالی کوریا کو باور کروائے کہ بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی کرنا نہ صرف اس کیلئے بلکہ پوری دنیا کے لئے نقصان دہ ثابت ہوگا۔ چین اور شمالی کوریا کے تعلقات یوں تو خوشگوار ہیں لیکن جہاں تک شمالی کوریا کو نیوکلیئر توانائی سے پاک ملک بنانے کا سوال ہے تو اس کے لئے چین نے بھی امریکہ کی تائید کی ہے اور وہ بھی یہی چاہتا ہے کہ شمالی کوریا نیوکلیئر توانائی کا حامل ملک نہ بن پائے۔