امداد کے لئے عظیم تر تعاون پر بشار الاسد کا زور

دمشق۔ 4؍مئی (سیاست ڈاٹ کام)۔ صدر شام بشار الاسد نے آج سرکاری اداروں پر جنھیں جنگ زدہ شام میں راحت رسانی کی ذمہ داری سپرد کی گئی ہے، بین الاقوامی اور مقامی تنظیموں کے ساتھ ’تعاون‘ میں اضافہ پر زور دیا۔ سرکاری ٹیلی ویژن کی خبر کے بموجب اقوام متحدہ کے سربراہ بانکی مون نے ایک رپورٹ جاری کی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ غیر ملکی امداد اب بھی شام کے ضرورت مند لاکھوں افراد تک نہیں پہنچ رہی ہے،

حالانکہ سلامتی کونسل نے فروری میں ایک قرارداد منظور کرتے ہوئے عظیم تر رسائی فراہم کرنے کا مطالبہ کیا تھا۔ گزشتہ ہفتہ بانکی مون کی رپورٹ میں جنگ کے دونوں فریقین پر الزام عائد کیا گیا ہے، لیکن خاص طور پر حکومت کو سرزنش کی گئی ہے۔ آج سرکاری ٹی وی کے نشریہ کی جھلکیوں میں بشار الاسد کو شام کی سرکاری راحت رساں کمیٹی کے نمائندوں سے ملاقات کرتے ہوئے دکھایا گیا۔ انھوں نے کہا کہ وزراء اور انسانی امداد میں مصروف محکموں کے درمیان عظیم تر تعاون ضروری ہے تاکہ امداد بِلاتاخیر فراہم کی جاسکے اور تمام مقامی اور بین الاقوامی اداروں کو بِلارکاوٹ امداد کی سربراہی میں مدد فراہم کی جاسکے۔ بشار الاسد کا یہ بیان اقوام متحدہ کی انسانی ہمدردی کمیٹی کے سربراہ ولیری اموس کے اس بیان کے تین دن بعد منظر عام پر آیا جس میں انھوں نے کہا تھا کہ قرارداد نمبر 2139 کارآمد نہیں ہے۔ بوسنیا اور صومالیہ میں جنگوں کا حوالہ دیتے ہوئے اموس نے کہا کہ کونسل کو اقوام متحدہ کے منشور کے باب VII کی مختلف کئی قراردادوں کے تحت جو منظور کی جاچکی ہیں، ضروری تعداد میں انسانی رسائی حاصل ہونی چاہئے۔

باب VII گنجائش فراہم کرتا ہے کہ پابند کرنے والی قراردادوں پر تحدیدات عائد کرنے اور طاقت استعمال کرتے ہوئے قابل عمل بنایا جائے۔ بین الاقوامی ماہرین قانون نے بھی کارروائی کا مطالبہ کیا ہے اور اقوام متحدہ پر زور دیا ہے کہ اردن اور ترکی کے راستہ سے شام کے سرحدی علاقوں تک جو باغیوں کے زیر قبضہ ہیں، امداد سربراہ کی جائے، لیکن بشار الاسد کی حکومت نے اب تک بین الاقوامی امداد اپوزیشن زیر قبضہ علاقوں تک اردن اور ترکی کے سرحدی علاقوں سے پہنچانے کی مزاحمت کی ہے اور بشار الاسد کے تازہ ترین بیان میں بھی اس پالیسی کی تبدیلی کا کوئی اشارہ نہیں دیا گیا ہے۔ اس کی بجائے انھوں نے کہا ہے کہ قومی خود مختاری کی قیمت پر کوئی سمجھوتہ کئے بغیر امداد کی سربراہی بہتر بنائی جانی چاہئے۔