سوال : کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ مصلّٰی پر امام آکر جب بیٹھ جائے اور مؤذن اقامت کہنا شروع کرے تو امام ومقتدی کو کب کھڑا ہونا چاہئے ۔ بعض امام اقامت شروع ہوتے ہی کھڑے ہوجاتے ہیں تو انکے ساتھ بعض مصلی بھی قیام میں آجاتے ہیں ۔اور بعض بیٹھے رہتے ہیں اور بعض ’’ حیَّ علی الفلاح ‘‘ پر کھڑے ہوتے ہیں ۔ بعض مساجد میں امام اور مقتدی دونوں حیَّ علی الصلوۃ پر کھڑے ہوتے ہیں ۔
ایسی صورتوں میں شرعاً کیا حکم ہے ؟ بینوا تؤجروا
جواب : اقامت شروع ہونے سے قبل اگر امام مصلّٰی پر موجود ہوتو امام ومقتدی ہردو ’’ حیَّ علی الفلاح ‘‘ پر کھڑے ہوجائیں ۔ اور اگر امام اقامت شروع ہونے کے بعد مقتدیوں کے پیچھے سے آرہا ہے تو جس صف سے امام گزرے وہ صف کھڑی ہوتی جائے تاآنکہ امام مصلّٰی پر پہنچ جائے ۔ تیسری صورت یہ ہیکہ امام آگے سے آرہاہے تو امام کو دیکھتے ہی تمام مقتدی کھڑے ہوجائیں ۔ عالمگیری جلد اول ص ۵۷ میں ہے ۔ ان کان المؤذن غیرالامام وکان القوم مع الامام فی المسجد فانہ یقوم الامام والقوم اذا قال المؤذن حیَّّ علی الفلاح عند علمائنا الثلاثۃ وھو الصحیح ۔ فأما اذا کان الامام خارج المسجد فان دخل المسجد من قبل الصفوف فکلما جاوز صفا قام ذلک الصف والیہ مال شمس الأئمۃ الحلوانی والسرخسی وشیخ الاسلام خواھرزادہ ۔ وان کان الامام دخل المسجد من قدَّامھم یقومون کما رأوا الامام ۔
پس امام اور مقتدی ہردو کو آداب کا لحاظ کرنا چاہئے ۔ اس کے خلاف عمل مکروہ ہوگا۔ اذا دخل الرجل عند الاقامۃ یکرہ لہ الانتظار قائما ولکن یقعد ثم یقوم اذا بلغ المؤذن قولہ ’’ حیَّ علی الفلاح ‘‘ کذافی المضمرات ۔
جمعہ کی اذان ِثانی کا شرعی حکم
سوال : کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ جمعہ کے دن اذان ثانی منبر کے روبرو دینی چاہئے یا باب الداخلہ پر ؟ کیا اس کا تعلق عقائد سے بھی ہے کہ خلاف کرنے والا بد عقیدہ ہو ؟ بینوا تؤجروا
جواب : جمعہ کی اذان ثانی کا مسئلہ عقیدہ سے متعلق نہیں ہے ، بلکہ شریعت مطھرہ کے ظاہری عمل سے ہے ۔ یہ اذان ، جب خطیب منبر پر بیٹھ جائے تو منبر کے روبرو دی جائے ۔ نبی کریم ﷺ کے عہد مبارک اور شیخین رضوان اﷲتعالیٰ علیہما کے دور خلافت میں یہی ایک اذان تھی ، حضرت سیدنا عثمان رضی اﷲتعالیٰ عنہ نے خارج مسجد پہلی اذان رائج فرمائی ۔ ہدایہ باب الجمعہ میں ہے (واذا صعد الامام المنبر جلس وأذّن المؤذن بین یدی المنبر) بذلک جری التوارث ولم یکن علی عھد رسول اﷲﷺ الاھذا الاذان اور ہدایہ کے حاشیہ میں ہے قولہ ولم یکن الخ اخرج الجماعۃ الا مسلما عن السائب بن یزید قال کان النداء یوم الجمعۃ أولہ اذا جلس الامام علی المنبر من عھد رسول اﷲ ﷺ وأبی بکر و عمر رضی اﷲ عنہما ، فلما کان زمن عثمان وکثر الناس زاد النداء اور فتاوی عالمگیری جلد اول ص ۱۴۹ میں ہے ، واذا جلس علی المنبر اذن بین یدیہ واقیم بعد تمام الخطبۃ بذلک جری التوارث کذا فی البحر الرائق ۔ نیز نور الایضاح میں خطبہ کے سنن کے تحت لکھا ہے: والأذان بین یدیہ کالاقامۃ ۔
پس صورت مسئول عنہا میں جمعہ کی اذان ثانی خطیب کے منبر پر بیٹھنے کے بعد منبر کے سامنے دی جائے اسی پر قدیم سے امت کا عمل ہے ۔
فقط واﷲ تعالی أعلم