الیکشن کمیشن کی جانب سے بیک وقت انتخابات، تلنگانہ میں قبل ازوقت اسمبلی انتخابات کا امکان

حیدرآباد ۔7 جولائی (سیاست نیوز) اگر الیکشن کمیشن آف انڈیا اسمبلی انتخابات جن ریاستوں کی مدت میعاد 2018ء کے وسط میں یا پھر 2019ء کے ابتداء میں ختم ہورہی ہے تو پھر لوک سبھا انتخابات کے ساتھ ہی بیک وقت کرواسکتا ہے۔ ایسی صورت میں تلنگانہ ریاست کو بھی بغیر ریاستی مرضی کے قبل از وقت انتخابات کا سامنا ہوسکتا ہے۔ ایسی رائے کی وجہ دراصل عوامی نمائندگی ایکٹ 14(2) کے تحت الیکشن کمیشن کو یہ حق حاصل ہیکہ وہ کسی بھی ریاستی اسمبلی کو تحلیل کئے بغیر انتخابات کرواسکتی ہے چاہے اس میں ریاستوں کی مرضی شامل ہو یا نہ ہو۔ شرط صرف یہ ہیکہ میعاد ختم ہونے سے چھ ماہ قبل یہ کروانا ہوتا ہے چنانچہ الیکشن کمیشن لوک سبھا کے ساتھ ساتھ ایسے ریاستی اسمبلیوں جن کی میعاد اس سال ڈسمبر یا جون آئندہ سال کے درمیان ختم ہورہی ہو تو انتخابات کا اعلان کرسکتا ہے۔ تلنگانہ کے علاوہ آندھرا، اروناچل پردیش، چھتیس گڑھ، مدھیہ پردیش، راجستھان، اوڈیشہ اور میزورم وہ ریاستیں ہیں جن کی میعاد اس چھ ماہ کے دوران ختم ہورہی ہے۔ موجود لوک سبھا کی میعاد 3 جون 2019ء کو ختم ہونے والی ہے اس کا مطلب یہ ہوا کہ الیکشن کمیشن 3 ڈسمبر 2018ء کے بعد کسی بھی وقت انتخابات منعقد کروانے کا اعلان کرسکتا ہے اور 3 ڈسمبر کے بعد بیک وقت ان اسمبلیوں کے انتخابات بھی کرواسکتا ہے جن کی میعاد ختم ہونے کیلئے ابھی چھ ماہ کا عرصہ باقی ہے۔ ریاست تلنگانہ اسمبلی کی میعاد 8 جون 2019ء کو ختم ہوجائے گی۔ اس کا مطلب ہیکہ الیکشن کمیشن 8 ڈسمبر 2018ء کے بعد کسی بھی وقت تلنگانہ کے اسمبلی انتخابات کا اعلان کرسکتا ہے۔ اگر وہ بیک وقت انتخابات کا اعلان کرتا ہے تو ٹی آر ایس حکومت کو قبول کرنا پڑے گا۔ اگر ٹی آر ایس چاہتی ہیکہ 8 ڈسمبر سے قبل انتخابات ہوں تو اس کو گورنر سے اسمبلی کو تحلیل کرنے کی درخواست دینی ہوگی۔ ٹی آر ایس ذرائع کے مطابق ایسے منظر کے خلاف وزیراعلیٰ چندرشیکھر کے مطابق وہ انتخابات مقررہ وقت پر ہی منعقد کروانا چاہتے ہیں یا پھر وزیراعظم کی مرضی کے مطابق بیک وقت کروانے پر ان کو راضی ہونا پڑے گا۔ اگر دونوں انتخابات بیک وقت ہوتے ہوں تو وزیراعلیٰ کے خیال میں دوسری ریاستوں میں مودی کی تائید یا مخالفت لہر کا یہاں پر بھی اثر پڑے گا۔ کے سی آر چاہتے ہیں ریاستی انتخابات صرف ریاست کی ترقی اور ویلفیر پروگرامس کو اجاگر کرتے ہوئے ہی لڑے جائیں۔ لہٰذا ذرائع کے مطابق وہ علحدہ اسمبلی انتخابات کیلئے ہی ترجیح دیں گے۔ جنوری 1980ء کے عام انتخابات کے بعد اندرا گاندھی واپس اپنا اقتدار حاصل کرلی تھیں اور دوبارہ ڈسمبر 1984 میں اندرا گاندھی قتل کے بعد کانگریس اپنا اقتدار واپس حاصل کرلی تھی۔ اس کے علاوہ ٹی آر ایس حلقوں میں ایک اور بحث زیردوراں ہے کہ چھتیس گڑھ، مدھیہ پردیش اور راجستھان کے اسمبلی انتخابات جہاں پر بی جے پی کو اصل مقابلہ اپوزیشن کانگریس سے درپیش ہے تو قبل از انتخابات کا مطلب تلنگانہ میں یہ ہوگا کہ دوسری ریاستوں میں مشغولی کے سبب کانگریس تلنگانہ میں اپنی توجہ کو یہاں پر پوری طرح جھونکے گی نہیں اور اگر اسمبلی انتخابات لوک سبھا انتخابات کے بعد ہوتے ہیں تو لوک سبھا انتخابی حلقوں پر اپنی بھرپور توجہ مرکوز کرکے زیادہ سے زیادہ نشستیں حاصل کرسکتی ہیں چنانچہ اگر الیکشن کمیشن بیک وقت انتخابات کا اعلان کرتا ہے تو کے سی آر یا تو مانسون اسمبلی سیشن کے ختم ہوتے ہی اکٹوبر یا نومبر میں انتخابات کیلئے اسمبلی کی تحلیل کی درخواست دے سکتے ہیں اور اگر الیکشن کمیشن اپریل ؍ مئی 2019ء میں پارلیمانی انتخابات کا اعلان کرتا ہے تو ایسی صورت میں وزیراعلیٰ اپنے مقررہ وقت سے بہت پہلے ہی اسمبلی انتخابات کو ترجیح دیں گے اور یہ ترجیحی وقت ڈسمبر ہوسکتا ہے کیونکہ نومبر میں (ربیع فصل) پر رعیتو بندھو اسکیم کے تحت کسانوں میں چیکس کی تقسیم کا عمل پورا ہوجائے گا۔ اس کے علاوہ مشن بھاگیرتا، دو بیڈروم مکانات کی تعمیر غریبوں کیلئے اور دوسری حکومتی اسکیموں کی تکمیل اس وقت تک ہوجائے گی۔ سکشن 14(2) عوامی نمائندگی ایکٹ کے تحت الیکشن کمیشن آف انڈیا کی جانب سے لوک سبھا اور اسمبلی انتخابات کا بیک وقت انعقاد کے ممکنہ فیصلہ پر مختلف مکاتب خیال و ماہرین کی مختلف رائے پائی جاتی ہے۔ اس ایکٹ کے تحت الیکشن کمیشن کو اختیار ہیکہ مقررہ مدد کے اختتام سے چھ ماہ قبل وہ کسی بھی ریاست میں انتخابات کرواسکتا ہے بغیر اسمبلی تحلیل کئے ہوئے۔ سابق الیکشن کمشنر مسٹر وی ایس سمپتھ نے کہا کہ اس ایکٹ کے تحت چیف کمیشن کیلئے ایک سہولت بخش طریقہ کار ہے۔ وہ ایک کے بعد دیگرے انتخابات کے عمل سے بچ سکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ ایک میکانیکی سہولت ہے لیکن اس کو اپنے مطلب براری کیلئے استعمال نہیں کیا جاسکتا کہ انتخابات کو ملتوی کردے یا قبل از وقت منعقد کرے جب تک کہ وہ تحلیل نہ کیا جائے یا مخلوط نہ ہو اور الیکشن کمیشن اس ایکٹ کوا ستعمال کرتے ہوئے متعلقہ اسمبلیوں کے حق کو محدود نہیں کرسکتا لیکن ساتھ میں انہوں نے کہا کہ اس ایکٹ کے تحت بیک وقت انتخابات دراصل جمہوری طریقہ کے مطابق نہیں ہے ایک اور بحث کے مطابق موجودہ لوک سبھا کی میعاد 3 جون 2019ء کو ختم ہونے والی ہے تو چھ ماہ کی شرط کے مطابق 3 ڈسمبر 2018ء کے بعد کسی بھی وقت وہ نوٹیفکیشن جاری کرسکتا ہے اور اگر وہ بیک وقت اسمبلی انتخابات کا انعقاد، تلنگانہ، آندھرا، راجستھان، اوڈیشہ، مدھیہ پردیش، میزورم میں تو اس کو آٹھ ماہ قبل اس کو نوٹیفکیشن دینا ہوگا۔ مشہور ماہر انتخابات مسٹر کے جے راؤ، سابقہ الیکشن کمیشن آف انڈیا کے مشیر نے کہا کہ الیکشن کمیشن چاہے تو بیک وقت انتخابات منعقد کرسکتا ہے۔ اگر چھ ماہ کے اندر ہی ان اسمبلیوں کی مدد ختم ہورہی ہو تاکہ بار بار انتخابات سے بچا جاسکے اور اس کیلئے ریپریزنٹیشن آف دی پیپلز ایکٹ 1951ء کے سیکشن 14(2) کو استعمال کرتے ہوئے اس پر عمل کیا جاسکتا ہے۔