الیکشن کمیشن بااختیار تاہم کے سی آر مختار کُل

تحلیل کیساتھ ہی کے سی آر نے کیسے کیا انتخابی شیڈول کا اعلان ؟
حیدرآباد ۔ 7 ۔ ستمبر : ( سیاست نیوز ) : سی پی آئی کے قومی جنرل سکریٹری ایس سدھاکر ریڈی نے کارگزار چیف منسٹر کے سی آر کی جانب سے انتخابی شیڈول جاری کرنے پر تعجب کا اظہار کرتے ہوئے دہلی میں چیف الیکشن کمشنر آف انڈیا سے ملاقات کرتے ہوئے کے سی آر کی جانب سے اکٹوبر میں انتخابی شیڈول جاری ہونے اور نومبر میں انتخابی عمل مکمل ہونے کا اعلان کرنے کی شکایت کی ۔ بعد ازاں میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے ایس سدھاکر ریڈی نے کہا کہ اسمبلی تحلیل کرنے کی گورنر سے سفارش کرنے کا کے سی آر کو اختیار ہے ۔ مگر انتخابی شیڈول جاری کرنے کا اختیار ہرگز نہیں ہے ۔ اقتدار کے نشے میں کے سی آر گھمنڈ و تکبر کا شکار ہوگئے اور اپنے آپ کو مختار کُل تصور کرتے ہوئے دستوری فرائض میں بیجا مداخلت کرنے کی ہر ممکن کوشش کررہے ہیں ۔ ان کی شکایت کا چیف الیکشن کمشنر او بی راوت نے بھی سخت نوٹ لیا ہے ۔ انتخابات کب منعقد کرنا ہے اس کا فیصلہ الیکشن کمیشن کرے گا ۔ سدھاکر ریڈی نے کہا کہ حد سے زیادہ خود اعتمادی کے سی آر کو لے ڈوبی ، تلنگانہ کے عوام نے ٹی آر ایس کو 5 سالہ میعاد کے لیے اقتدار سونپا ہے ۔ لیکن کارگزار چیف منسٹر و سربراہ ٹی آر ایس کے سی آر 9 ماہ قبل اسمبلی تحلیل کرتے ہوئے عوام کے فیصلے کی توہین کی ہے ۔ جس کا انہیں خمیازہ بھگتنا پڑے گا جمہوریت میں عوام ہی مختار کل ہوتے ہیں مگر کے سی آر خود کو مختار کل تصور کرتے ہوئے دوسروں کے لیے کھودے گئے گڑھے میں خود گرجائیں گے ۔ سی پی آئی انتخابات کا سامنا کرنے کے لیے پوری طرح تیار ہے ، انتخابات سے ڈرنے گھبرانے والی نہیں ہے ۔ ملک میں فرقہ پرستوں اور مفاد پرستوں کے خلاف اپنی جنگ جاری رکھے گی ۔ سی پی آئی کے قومی جنرل سکریٹری نے کے سی آر کی جانب سے اپوزیشن قائدین کے خلاف شخصی ریمارکس کرنے کی سخت مذمت کرتے ہوئے کہا کہ مہذب سماج میں اس طرح کی سونچ اقدار کی گراوٹ کا جیتا جاگتا ثبوت ہے ۔ تحلیل شدہ ٹی آر ایس حکومت کے عوام دشمن پالیسیوں کے خلاف سی پی آئی اپنی جدوجہد جاری رکھے گی اور انتخابات میں ہم خیال جماعتوں سے اتحاد کرنے کے معاملے میں سنجیدگی سے غور کیا جارہا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ ٹی آر ایس تمام محاذوں میں ناکام ہوچکی ہے ۔ سماج کا کوئی بھی طبقہ حکومت کی کارکردگی سے مطمئن نہیں ہے ۔ عوام میں ٹی آر ایس کے خلاف برہمی اور ناراضگی پائی جاتی ہے ۔ جو ٹی آر ایس کے لیے خطرے کی گھنٹی ہے ۔۔