الیکشن مافیا

چہرے کومرے دیکھ کہ حیراں ہے مسیحا
سینے میں مگر درد ہے کچھ میرے نہاں اور
الیکشن مافیا
لوک سبھا انتخابات میں تمام سیاسی پارٹیوں کا ظاہری منشور ایک ہوتا ہے اور ان کا باطنی منشور کچھ اور ہوتا ہے۔ ظاہر معلوم اور باطن نامعلوم ہوتا ہے۔ چنانچہ تمام پارٹیوں کے حامیوں اور عوام الناس کو ساری زندگی ظاہر پر توجہ رکھتے ہوئے دیکھا گیا ہے اور اسے سنوارنے کی لگن میں مگن پارٹیاں ہر انتخابات کے وقت یہی تاثر دینی کی کوشش کرتی ہیں کہ وہ ہی ان کی حقیقی ہمدرد و بہی خواہ ہے۔ نتائج کے بعد ان کی حقیقی ہمدردی رفو ہوجاتی ہے۔ اس ہمدردی کے جھانسہ کا شکار سب سے زیادہ ہندوستانی مسلمان ہوتے ہیں۔ ہندوستان کی سب سے بڑی اقلیت کی حیثیت سے مسلمانوں کو اس ملک کی معاشی ترقی کا حقیقی معنوں میں کوئی فائدہ نہیں ہوا۔ اس مرتبہ بھی تمام سیاسی پارٹیاں 2014 کے انتخابات کے موقع پر مسلمانوں کے لئے اپنی تشویش کا ظاہری پن دکھاکر ہمدردی حاصل کررہی ہیں۔

مسلم ووٹ کے لئے بی جے پی وزارت عظمیٰ کے امیدوار نریندر مودی بھی دلجوئی کی پالیسیاں بنارہے ہیں۔ شاہراہ دستور کے کنارے ایستادہ کردہ اپنی فرقہ پرستی کی اونچی حویلی سے مسلمانوں کو گمراہ کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ مسلمانوں کے ووٹوں کے تعلق سے یہ بات خاص و عام ہے کہ وہ جس کو ووٹ دیں گے اس کی کامیابی یقینی ہوتی ہے۔ مسلمانوں کا ایک طبقہ سمجھتا ہے کہ ان کے ووٹوں سے ہی کانگریس کو اقتدار ملتا ہے۔ حقیقت بھی یہی ہے۔ ہندوستانی معاشرہ میں پوری طرح رچ بس گئے مسلمانوں نے اپنی سیاسی شناخت بنانے کی کبھی کوشش نہیں کی۔ ہر انتخابات کے وقت دوسری پارٹیوں کے لئے ووٹ بینک ہی رہے۔ ریاستوں میں جب سے علاقائی پارٹیوں نے اپنا اثر دکھانا شروع کیا ہے وہاں مسلمانوں نے علاقائی پارٹیوں کو ترجیح دی ہے جس سے کانگریس کو بدترین شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ اترپردیش، بہار، مغربی بنگال اور کیرالا میں مسلمانوں کی اکثریت نے علاقائی پارٹیوں کو مضبوط بنایا ہے۔ ان ریاستوں میں کانگریس کو مسلمانوں کے ووٹوں سے محرومی کے نتیجہ میں تیسرا اور چوتھا مقام ملا ہے۔ جبکہ آسام اور آندھراپردیش میں مسلمانوں نے سابق میں کانگریس کو ووٹ دے کر کامیاب بنایا تھا اب اس مرتبہ ایسا نہیں ہوگا۔ آسام اور آندھراپردیش میں کانگریس کا صفایا ہونے جارہا ہے تو یہ مسلمانوں کی ناراضگی کی وجہ ہی ہے۔ بی جے پی امیدوار کو ناکام بنانے یا اقتدار کے حصول سے روکنے کے لئے مسلمانوں کے ووٹوں کو اہم رول ادا کرنا ہے۔ قومی سطح پر بی جے پی کو شکست دینا اس لئے بھی ضروری ہے کیوں کہ اس پارٹی کا خفیہ فرقہ پرستانہ ایجنڈہ مسلمانوں کے لئے خطرناک ہوگا۔ پہلے ہی سے پسماندہ مسلمانوں کی زندگیوں کو مزید خطرناک حالات سے دوچار کردیا جائے تو اس کے بھیانک نتائج برآمد ہوں گے اس لئے مسلمانوں کو ہر سُو یہی مشورہ دیا جارہا ہے کہ ’’اپنی فکر کر ناداں مصیبت آنے والی ہے۔ تری بربادیوں کے مشورے ہیں آسمانوں میں‘‘۔ اگر مسلمانوں نے مشوروں کو نہیں سمجھا تو ووٹ کا غلط استعمال مختلف مسائل میں مبتلا کرسکتا ہے۔

آج ہر حلقہ اور جلسہ و جلوسوں یا نجی محفلوں میں مسلمانوں کے لئے فکر صحیح رکھنے والی شخصیتوں کی یہی رائے اُبھر رہی ہے کہ مسلمانوں کو سوچ سمجھ کر ووٹ دینا چاہئے۔ مساجد میں نماز جمعہ سے قبل خطاب میں علماء مسلمانوں کو آنے والے کل کی دھندلی تصویر دکھاکر ووٹ کے استعمال کو درست کرنے اور اپنے لئے پرامن مستقبل کی دعا کرنے کی تلقین کررہے ہیں۔ ویسے ہندوستان میں ہونے والے تمام انتخابات کے بارے میں شکوک و شبہات کا اظہار کیا جارہا ہے اور بعض انتخابات میں تو بڑے پیمانہ پر دھاندلیاں ہوتی ہیں۔ اس مرتبہ بھی ایسا ہی کچھ ہوسکتا ہے تاہم الیکشن کمیشن نے شفاف انتخابات کو یقینی بنانے کے انتظامات کئے ہیں۔ اس کے باوجود جن پارٹیوں کو دھاندلیوں میں ملکہ حاصل ہے وہ اپنی کامیابی کو یقینی بناتے ہیں۔ انتخابی مافیا کے خلاف قدم اُٹھانے کے لئے الیکشن کمیشن کو کوئی ثبوت ہاتھ ہی نہیں لگتا پھر وہی ہوتا ہے جو پارٹیاں چاہتی ہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ رائے دہندے ہی خاص کر مسلم رائے دہندے ایسی پارٹیوں کی چالاکیوں کے خلاف چوکسی اختیار کریں اور ان کے جھانسہ میں آنے سے بچیں۔ نریندر مودی کی آمریت کے خلاف ابھی سے سیکولرازم کا راستہ وسیع کردیا جائے تو مناسب ہوگا۔

ہائی ٹیک مسیحا کا سیاسی مستقبل

آندھراپردیش میں سیاسی پارٹیاں انتخابی اتحاد کے لئے دوسری شادی کے لئے پہلی بیوی سے اجازت حاصل کرنے کے مصداق مختلف پارٹیوں سے مذاکرات میں مصروف ہیں۔ اتحاد کی کوشش میں بی جے پی، تلگودیشم کے مذاکرات ناکام ہوں اور نئے سیاستداں تلگو اداکار پون کلیان کی پارٹی جنا سینا سے دوستی کرنے تلگودیشم صدر چندرابابو نائیڈو کامیاب ہوں تو آندھرا میں بی جے پی، تلگودیشم اور جنا سینا اتحاد کا جو نتیجہ برآمد ہوگا وہ تلگودیشم کے لئے سیاسی موت کے مترادف ہوگا یا چندرابابو نائیڈو کی غلطیوں کا خمیازہ پارٹی کو بھگتنا پڑے گا۔ انتخابی اتحاد کی صورت میں چندرابابو نائیڈو کو اپنے وفادار پارٹی قائدین کو ٹکٹ دینے میں مشکل ہوجائے گی۔ اس پر اتحادی پارٹیوں کو خوش کرنے کے لئے انھیں اپنی کیڈر کی قربانی دینی پڑے گی۔ جو پارٹی کیڈر کو قربان کرتی ہے اس کا سیاسی مستقبل بھی تاریک بن جاتا ہے۔ 63 سالہ چندرابابو نائیڈو نے اپنی دو میعاد کی حکمرانی کے دوران ریاست کے کسانوں کو بُری طرح ناراض کرکے 2004 ء کے انتخابات میں شکست کا منہ دیکھا تھا۔ مسلسل دو میعاد تک اقتدار سے دور رہنے والے نائیڈو کو 2014ء کے انتخابات کرو یا مرو کی جنگ ثابت ہوں گے۔ ریاست کی تقسیم کے بعد یہ پہلی سیاسی لڑائی تلگودیشم کو کس مقام تک لے جائے گی یہ لوک سبھا اور اسمبلی انتخابات کے نتائج ہی بتائیں گے۔ اب انھیں اپنے ہائی ٹیک، امیج کے ساتھ فہم و فراست کے سابق امیج کو بحال کرتے ہوئے سوجھ بوجھ کا مظاہرہ کرنے کی ضرورت ہے۔ فرقہ پرستوں سے ہاتھ ملانا شائد ان کی ایک اور بھیانک غلطی ہوگی۔ اس کے بعد حیدرآباد کے ہائی ٹیک مسیحا کو عوام کی آنکھوں میں بیٹھے خواب سجانے کا ثمر ملے گا یا سیاسی بے ثمری کا شکار ہوں گے۔ یہ ان کے انتخابی اتحاد سے متعلق دانشمندانہ فیصلہ پر منحصر ہے۔