الور ہجومی تشدد معاملہ : پولیس کے مشکوک رول پر ملک بھر میں سیاست گرم

نئی دہلی : راجستھان کے الور میں اکبر خان کو پیٹ پیٹ کر مارڈالے جانے کے معاملہ میں مقامی پولیس کے مشکوک کردار پر ملک بھر میں سیاست گرم ہوگئی ہے ۔آل انڈیا مسلم اتحاد المسلمین کے صدر او رحیدرآباد کے رکن پارلیمنٹ اسد الدین اویسی او ربی جے پی اتحادی پارٹی شیوسینا نے ریاست میں حکمراں بی جے پی حکومت پر سوال اٹھائے ہیں ۔اسد الدین اویسی نے کہا کہ راجستھان پولیس کا ایکشن مجھے حیران نہیں کرتا ۔کیونکہ انہوں نے پہلو خان قتل کیس میں بھی یہی کیا تھا ۔راجستھان پولیس گؤرکشکوں کی حمایت کررہی ہے ۔یہ لوگ پولیس کے ساتھ ملے ہوئے ہیں ۔اسی دوران کانگریس کے سینئر لیڈر ششی تھرور نے کہا کہ اس ملک میں کئی جگہوں پر تو مسلمان ہونے سے بہتر ہے گائے ہونا ۔‘‘

تھرور نے کہا کہ وزیر داخلہ راجناتھ سنگھ بڑھتے واقعات سے انکار کیا ہے ۔ مرکزی وزیر مختار عباس نقوی کہتے ہیں کہ ملک میں گزشتہ چار سالوں میں کوئی بڑا فرقہ وارانہ تشدد نہیں ہوا ہے ۔یہ دونوں لیڈر جھوٹ بول رہے ہیں ۔انہوں نے کہا کہ ۲۰۱۴ء کے بعد سے اب تک اقلیت مخالف تشدد میں ۳۸۹ ؍ لوگ مارے جاچکے ہیں او رہزاروں زخمی ہوئے ہیں ۔ششی نے مزید کہا کہ گزشتہ چار برسو ں میں گاؤ رکشک کے حملوں میں ۸۶؍ فیصد مسلمان شکار ہوئے ہیں۔‘‘ شیو سینا کے ادھو ٹھاکرے نے کہا کہ میں گزشتہ تین چار سال سے ملک میں چل رہے ہندو توا کو قبول نہیں کرتا ہو ں ۔ہندو توا ہمارا نظریہ نہیں ہے ۔ ہماری خواتین آج محفوظ نہیں ہیں او رآ پ گائے کی بات کررہے ہیں ۔

انہوں نے کہا کہ واہ واہ کرنے والو ں اورتعریف کرنے والوں کو میں دوست نہیں مانتا ۔حکومت میں حصہ داری ہونے کے بعد بھی ملک کے عوام کے لئے اگر کچھ غلط ہورہا ہے تو میرا فرض ہے کہ پوری طاقت کے ساتھ میں وہ کروں جو میں صحیح سمجھتا ہو ں او روہ کروں گا ۔‘‘