الوداع یا شھر رمضان الوداع

مفتی محمد قاسم صدیقی تسخیر، نائب مفتی جامعہ نظامیہ

یہ خدائے ذوالجلال کا قانون قدرت ہے کہ سورج طلوع ہوتا ہے، اپنے شباب پر پہنچتا ہے اور پھر غروب ہو جاتا ہے۔ کلی کھلتی، مسکراتی ہے اور پھر مرجھا جاتی ہے۔ بچہ پیدا ہوتا ہے، جوان و توانا ہوتا ہے اور پھر بوڑھا و کمزور ہوکر ابدی نیند سو جاتا ہے۔ اس دنیا میں کسی کو قرار و بقاء نہیں، ہر عروج کو زوال، ہر ولادت کو موت اور ہر ابتداء کو انتہاء ہے۔ اسی طرح ایک عرصہ سے رمضان المبارک کی آمد کا انتظار رہا، پھر وہ بے چینی و بے قراری کی گھڑیاں ختم ہوئیں، رمضان المبارک کا ہلال نظر آیا، چاند کی رویت کے ساتھ بندگی و طاعت کے جذبات امنڈ آئے، لوگ مسجدوں کا رخ کرنے لگے، رمضان المبارک کی خصوصی عبادت تراویح میں شریک ہوئے، کئی لمحات اللہ تعالی کے دربار میں قیام کرکے اس کے کلام کی حلاوت و چاشنی سے محظوظ ہوئے، رات دیر گئے گھر واپس ہوئے، کچھ وقفہ آرام نہیں کئے کہ سحری کے لئے بیدار ہوکر دن بھر اللہ تعالی کی رضا کے لئے بھوکا و پیاسا رہنے کی خاطر کچھ تناول کئے اور بعد ازاں مسجد کا رخ کرکے فجر کی نماز ادا کی۔ دن بھر جسم کام کاج میں مصروف، زبان تسبیح، تہلیل، تحمید، تمجید، درود شریف اور قرآن مجید کی تلاوت میں زمزمہ سنج، دل میں خدا کی محبت و شیفتگی کے جذبات موجزن، مسجدیں آباد، ہر کونے میں بندگان خدا ذکر و شغل میں مصروف، سروں پر ٹوپی کا اہتمام، چہروں پر خاص نور کا منظر، افطار کا پرنور منظر، اس کی تیاری کی لذت، دستر خوان پر بیٹھ کر سائرن کا انتظار، غرض رمضان کی آمد کے ساتھ عبادت و اطاعت اور ذوق و شوق کے جلوے ہر سو نظر آنے شروع ہوئے۔ بندگان خدا حصول ثواب کے لئے مستعد ہو گئے، لیکن جونہی پہلا دہا ختم ہوا ان جذبات میں کمی شروع ہو جاتی ہے، نماز کی صفوں میں کمی ہونے لگتی ہے، تراویح میں مصلیوں کی تعداد میں انحطاط ہوتا ہے، جب کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم، صحابہ کرام اور سلف صالحین آخری دہے میں مزید سرگرم ہو جاتے تھے اور دنیا و دنیوی تعلقات سے بالکل لاتعلق ہوکر کامل یکسوئی سے مصروف عبادت رہتے اور رمضان المبارک کی ایک ایک گھڑی کو غنیمت جان کر اس سے استفادہ کے لئے کوشاں رہتے۔ اس کے برخلاف ہم مسلمانوں کی یہ حالت ہے کہ جوں جوں رمضان المبارک اختتامی مراحل میں داخل ہوتا ہے، ہماری کوتاہی، غفلت، لاپرواہی، بے اعتنائی، تساہل، عدم دلچسپی اور ذوق و شوق میں کمی برھتی جاتی ہے۔

حضرت محدث دکن سیدنا عبد اللہ شاہ صاحب قبلہ علیہ الرحمہ فضائل رمضان میں جمعۃ الوداع کے ضمن میں عام فہم اسلوب میں پتے کی بات بیان کرتے ہیں: ’’سنو صاحبو! ایک شخص بدتمیز، بدسلیقہ اور بے ادب ہے، ہر چند اس سے کہا گیا کہ میاں غسل کرلو، کپڑے بدلو، مگر اس بھلے آدمی نے ایک نہ سنی، بھوت سا بنا ہوا ہے۔ پھر لطف یہ ہے کہ بادشاہ کے حضوری میں جانا بھی چاہتا ہے، لیکن بادشاہ کو اس سے محبت ہے اور اس کو خبر بھی نہیں کہ بادشاہ کو اس سے محبت ہے، اگر خبر ہوتی تو اس نجس حالت کے ساتھ بادشاہ کی حضوری میں جانے کاارادہ نہ کرتا…۔
غرض ایسی حالت سے آنے والے کے لئے تو جیل تیار ہونا چاہئے تھا، مگر بادشاہ کو اس سے محبت ہے، اس لئے بادشاہ نے یہ حکم دیا کہ اس کو حمام میں لے جاکر نہلاؤ، کیونکہ وہاں شاہی لوگ جمع ہیں۔ انھوں نے اس کو خوب مل مل کر نہلانا شروع کیا۔ اس حضرت نے نہانے میں بڑے نخرے کئے اور کہنا شروع کیا کہ ہائے ہائے میں مرا، میں جلا، مگر شاہی لوگ اس کی نہ سنے، اس لئے کہ وہ سمجھتے ہیں کہ یہ بھولا نادان ہے، اگر ہم نے ذرا کمی کی تو یہ میلا کچیلا رہ جائے گا اور دربار کے لائق نہ ہوگا۔ اس پر بھی اگر ذرا سی شاہی لوگوں کی نہ سنے تو کسی کا کیا بگڑے گا خود دربار سے محروم رہے گا۔
ایسا ہی انسان بڑا بدتمیز ہے، بے ادب، گناہوں کی نجاست آلودہ ہے، نہ تو غسل کیا نہ نیک اعمال کے کپڑے بدلے، گناہوں کی بدبو آرہی ہے، ہر چند کہنے والے کہہ رہے ہیں بھائی توبہ کرو، کچھ نیک کام کرو، مگر میاں یہاں سنتا کون ہے۔ لیکن خدائے تعالی کو اس سے بہت محبت ہے، اگر اس کو بھی خدا سے محبت ہوتی تو ہر وقت خود دیکھتا رہتا کونسی بات مجھ میں خدا کی مرضی کے خلاف ہے۔ اس حالت میں آنے والے کے لئے دوزخ کا حکم ہوتا، لیکن چوں کہ خدائے تعالی کو انسان سے بے حد محبت ہے، اس لئے حکم دیا کہ اس کو تقویٰ کے حمام میں لے جاکر گناہوں سے پاک کرو‘‘۔

پس رمضان المبارک اس لئے آیا، تاکہ ہم گنہگاروں کو جو نافرمانی، عصیاں، عدول حکمی، نفسانی خواہشات کی پیروی کی نجاست سے آلودہ ہیں، ہمارے قلب و دماغ کو عبادت و طاعت کے پانی سے دھوکر صاف شفاف کردے۔ تقویٰ کے نور سے آراستہ و پیراستہ کرکے خدائے ذوالجلال کے دربار میں حاضری کے قابل بنادے، لیکن ہم ایسے لاپرواہ ہیں کہ اس انمول موقع سے فائدہ اٹھانے سے محروم رہے۔ اب جو لمحات باقی رہ گئے ہیں، ان تھوڑے سے لمحات ہی میں صحیح توبہ و استغفار کرکے رجوع الی اللہ ہونے کی بجائے بازاروں اور شاہراہوں میں اپنے اوقات ضائع کر رہے ہیں۔ مرد و خواتین، بوڑھے اور بچے سبھی نوافل کی کثرت تو کجا، فرائض سے غفلت کر رہے ہیں۔ کیا ہم مطمئن ہو گئے کہ ہماری مغفرت ہو گئی، ہم کو خدا کی خوشنودی کا پروانہ مل گیا، دوزخ سے نجات یقینی ہو گئی اور جنت میں داخلہ قطعی ہو گیا۔

ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ رمضان المبارک عبادت کا مہینہ نہیں، خرید و فروخت اور شاپنگ کا مہینہ ہے۔ یہ نفسانی خواہشات کو تہہ تیغ کرنے اور رضائے الہی حاصل کرنے کا موسم نہیں، بلکہ خوشی و مسرت اور عید و تہوار کا سیزن ہے۔ اللہ تعالی ہم سب کو رمضان المبارک کے قدر کی توفیق عطا فرمائے اور اس رمضان کو ہمارے لئے رحمت، مغفرت اور دوزخ سے رہائی کا مہینہ بنادے، ہمارے دلوں کو تقویٰ کے نور سے منور فرمادے۔ آمین بجاہ طہ و یسین۔