ابوزاہد شاہ سید وحید اللّٰہ حسینی القادری الملتانی
بعض افراد شخصیتوں سے اس قدر متاثر ہوتے ہیں کہ ان کے قول کو حرف آخر اور ان کے فعل کو سند اور دلیل مانتے ہیں۔ ایسی ہستیوں کے خلاف کوئی بات سننا تو درکنار، سوچنے کو بھی معیوب سمجھتے ہیں۔ لیکن اگر اسی مشہور و معروف اور معزز و مکرم ہستی سے جب کوئی فاش غلطی ہوجاتی ہے یا اس کا کوئی عیب کھل جاتا ہے تو وہ یکلخت سب کی نگاہوں سے گرجاتا ہے، یہاں تک کہ عزیز و اقارب بھی اس سے اپنا دامن بچانے میں عافیت محسوس کرتے ہیں۔ ان حالات میں بندہ اس قدر ذہنی اُلجھن کا شکار ہو جاتا ہے کہ وسیع و عریض زمین کو اپنے حق میں تنگ محسوس کرنے لگتا ہے۔
اس تناظر میں خالق کونین کے دریائے لطف بیکراں اور رب کریم کی معافی کا ٹھاٹھیں مارتا ہوا سمندر ملاحظہ کیجئے کہ رب کائنات گناہ اور شر میں ڈوبے ہوئے بندے کو اپنی رحمت کاملہ سے ڈھانپ لیتا ہے اور ’’میرا بندہ‘‘ کہہ کر خطاب فرماتا ہے، جس کے لئے گناہوں کا ارتکاب نہ صرف عادت، بلکہ فطرت ثانیہ ہے۔ ارشاد ربانی ہے: ’’آپ فرمائیے اے میرے بندو! جنھوں نے زیادتیاں کی ہیں اپنے نفسوں پر، مایوس نہ ہو جاؤ اللہ کی رحمت سے، یقیناً اللہ تعالیٰ بخش دیتا ہے سارے گناہوں کو۔ بلاشبہ وہی بہت بخشنے والا ہمیشہ رحم فرمانے والا ہے‘‘ (سورۃ الزمر۔۵۳) اس آیت پاک میں رب کائنات مجرم اور گنہگار بندوں کو ’’اپنا بندہ‘‘ کہہ کر پکار رہا ہے، جو اس کی وسیع رحمت کی طرف اشارہ کر رہا ہے۔ حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بلاشبہ شیطان نے کہا: ’’اے رب! قسم ہے تیری عزت کی کہ میں تیرے بندوں کو بہکاتا رہوں گا، جب تک کہ ان کی روحیں ان کے جسموں میں رہیں گی‘‘۔ اس پر اللہ جل شانہ نے ارشاد فرمایا کہ ’’مجھے اپنی عزت و جلال کی اور رتبۂ بلند کی قسم ہے، میں ان کو بخشتا رہوں گا، جب تک وہ مجھ سے مغفرت طلب کرتے رہیں گے‘‘۔ (مشکوۃ شریف)
گنہگار بندوں سے لطف و مہربانی سے کلام کرنا اور خدا کی عمومی بخشش بحیثیت اللہ تعالیٰ کے خلیفہ ہونے کے ہم سے اس بات کا تقاضہ کرتا ہے کہ ہم بھی اپنے ماتحت سے ایسا ہی برتاؤ کریں۔ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے: ’’اور احسان کیا کرو جس طرح اللہ تعالی نے تجھ پر احسان فرمایا‘‘ (سورۃ القصص۔۷۷) یعنی جب رب کائنات ہمارے گناہوں سے دَرگزر فرماکر ہمیں زندگی سنوارنے کے متعدد مواقع فراہم کرتا ہے تو ہمیں بھی چاہئے کہ ہم اپنے ماتحتین کی لغزشوں کو درگزر کریں۔ اگر ہم اس طرح کے جذبات کو فروغ دیں تو قوی امید ہے کہ معاشرے میں رائج بے شمار برائیوں کا ازخود خاتمہ ہو جائے گا۔ حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اللہ تعالیٰ اپنے بندوں پر رحم کرتا ہے، جو دوسروں پر رحم کرتے ہیں‘‘۔ (بخاری شریف)
درگزر کرنے کی صفت سے محروم ہونے کی وجہ سے مسلم معاشرہ بے شمار برائیوں کا شکار ہو رہا ہے، کئی خاوند ایسے ہیں جو ذرا سی لغزش پر اپنی زوجہ کو رشتۂ زوجیت سے خارج کردیتے ہیں۔ اندازہ کیجئے کہ دن بھر میں ہم کتنی غلطیوں کا ارتکاب کرتے ہیں، اگر بالفرض محال ہماری روش کی طرح رب قدیر بھی ہماری ہر لغزش کا مواخذہ شروع کردے اور اپنی چادر رحمت سے باہر کردے تو بتائیے وہ کونسا دَر ہے، جہاں جاکر ہم اپنے گناہوں کی معافی طلب کریں؟ یا رب کائنات ہم کو حکم دے کہ تم نے ہماری نافرمانی کی ہے، لہذا اللہ تعالیٰ کی اپنے بندے سے محبت و مہربانی اس سے بھی کہیں زیادہ ہے۔ چنانچہ حضرت سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس کچھ قیدی لائے گئے، ان قیدیوں میں ایک عورت کسی کو تلاش کر رہی تھی۔ جب اس نے ان قیدیوں میں ایک بچے کو پایا تو اسے اُٹھالیا، چھاتی سے لگایا اور دودھ پلانا شروع کردیا، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے (یہ منظر دیکھ کر) ہم سے فرمایا: ’’کیا تم سمجھتے ہو کہ یہ عورت اپنے بچے کو آگ میں ڈال دے گی؟‘‘۔ ہم نے کہا: ’’نہیں، اللہ کی قسم! وہ اسے آگ میں نہیں ڈال سکتی‘‘ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جتنی مہربان یہ عورت اپنے بچے پر ہے، اس سے زیادہ مہربان اللہ تعالی اپنے بندوں پر ہے‘‘۔ (مسلم شریف)
جو رب ہم سے اتنی محبت کرتا ہے، ہم پر لازم ہے کہ ہم دنیاوی مفادات اور نفسانی خواہشات بلکہ ہر چیز سے زیادہ رب کائنات اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات اور احکامات سے محبت کریں۔ رب ذوالجلال فرماتا ہے: ’’اے ابن آدم! جب تک تو مجھے پکارتا رہے گا اور مجھ سے امید وابستہ رکھے گا، تو تو جس حالت میں بھی ہوگا، میں تجھے معاف کرتا رہوں گا اور میں کوئی پرواہ نہ کروں گا۔ اے ابن آدم! اگر تیرے گناہ آسمان تک پہنچ جائیں، پھر تو مجھ سے معافی طلب کرے تو میں تجھے بخش دوں گا اور میں کوئی پرواہ نہیں کروں گا‘‘۔ (ترمذی شریف)
توبہ و استغفار سے نہ صرف گناہوں کی تلافی ہو جاتی ہے، بلکہ اس کے برکات و فیضان سے مسخ شدہ فطرت دوبارہ آباد ہو جاتی ہے، بشرطیکہ توبہ و استغفار خلوص کے ساتھ ہونا چاہئے، ورنہ صرف ہاتھ میں تسبیح رکھنے اور زبانی توبہ و استغفار سے کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔ اگر ہم صدق دل اور حسن نیت کے ساتھ بارگاہ رب العزت میں اپنے گناہوں سے تائب ہوکر انابت الی اللہ، اطاعت و فرماں برداری اور اعمال صالحہ کے مراحل طے کرنے کا عزم مصمم کرلیں تو اللہ تعالی ہمارے تمام گناہوں کو معاف فرمادے گا۔ رحمت الہی کے مستحق بننے کے لئے توبہ و استغفار کے ساتھ اپنے نفس کا محاسبہ بھی ازحد ضروری ہے۔ حضور سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’دانا وہ شخص ہے، جس نے اپنے نفس کا محاسبہ کیا اور آخرت کے لئے نیک عمل کئے اور احمق وہ شخص ہے، جس نے اپنے نفس کو خواہشوں کے تابع کیا اور اللہ تعالی سے آرزوؤں کی تمنا کی‘‘ (رواہ الترمذی) یعنی محاسبہ نفس کا تقاضہ یہ ہے کہ انسان کے ظاہر و باطن میں کوئی تضاد نہ رہے۔ چوں کہ ظاہری حسن سے انسان دنیا کو فریب دے سکتا ہے، لیکن باطنی خباثت سے اللہ تعالی واقف ہوتا ہے۔ چوں کہ رب کائنات انسان کے سینے میں دفن راز کو بھی جاننے والا ہے، لہذا ہمارے لئے یہ ضروری ہے کہ ہم ایک طرف ارکان اسلام کی خوبیوں سے اپنے ظاہر کو مزین کریں تو دوسری طرف اپنے باطن کو خوف و خشیت الہی سے منور کریں۔
انسان جب کوئی چیز خریدنے کے لئے بازار جاتا ہے تو اشیاء کی افادیت کے مطابق قیمت ادا کرتا ہے۔ کوئی چیز اعلیٰ ہو تو زیادہ قیمت دے کر خرید لیتا ہے اور اگر کوئی چیز ادنیٰ ہو تو وہ اسے ارزاں قیمت میں خریدنا پسند کرتا ہے۔ اس تناظر میں اندازہ کیجئے کہ ہمارا پروردگار کس قدر رحمن و رحیم ہے کہ وہ ہماری ناقص طاعت و فرماں برداری اور عبادت و ریاضت کو قبول کرتا ہے، بلکہ اس کے صدقے میں ہماری خامیوں اور کوتاہیوں کو فراموش کرکے انسان کو جنت کا مستحق بنادیتا ہے، جب کہ حقیقت یہ ہے کہ ہماری ساری حسنات بھی نعائم جنت کی کسی ایک نعمت کا عوض قرار نہیں پاسکتیں۔