اللہ تبارک و تعالیٰ کے احسانات

آفرین سردار علی
سورۂ رحمن میں اللہ تعالی کی بے شمار نعمتیں گنائی گئی ہیں، ان میں کا چھوٹا سا حصہ یہ ہے: اللہ تبارک و تعالی کا ارشاد ہے: ’’رحمن نے دو سمندر جاری کئے، جو باہم ملتے ہیں۔ ان دونوں کے درمیان ایک پردہ ہے، وہ دونوں اس سے تجاز نہیں کرتے۔ ان دونوں سمندروں سے موتی اور مرجان نکلتے ہیں۔ اگر ہم ان گہری نعمتوں کو نہ سمجھے تو اللہ تبارک و تعالی کے حکم سے جو رات دن آتے جاتے رہتے ہیں، ان پر ذرا غور تو کریں‘‘۔
انسان قدرت الہی کا شاہکار ہے، باقی کل مخلوقات انسان کی خدمت کے لئے مسخر ہیں۔ زمین، آسمان، سورج، چاند، ستارے، پہاڑ، دریا، ہوا، پانی، زمین کے اندر خزانے، سمندر کی مچھلیاں، ہیرے جواہرات، تیل کے چشمے، سونے چاندی کی کانیں، یہ ساری نعمتیں تمام انسانوں کے لئے ہیں، نہ اس میں کالے گورے کاکوئی فرق ہے نہ امیر اور غریب کا۔ نہ اس میں خاندان کی کوئی تقسیم ہے نہ علاقے کی۔ ہر انسان کے لئے اللہ تعالی نے ضرورتیں رکھی ہیں اور وہ ان کو پورا کرنے کے لئے اللہ تعالی کی دی ہوئی عقل کا استعمال کرتا ہے۔ دنیا کی ان نعمتوں میں اللہ تعالی نے ایسا عموم رکھا ہے کہ اس میں کسی کا کوئی امتیاز نہیں، جو چاہے اپنی عقل و ذہانت کا استعمال کرے اور جدوجہد کرکے جہاں تک چاہے ترقی کرتا چلا جائے۔
لیکن ان تمام نعمتوں میں اس کی سب سے بڑی نعمت ایمان ہے، جس کی توفیق ہر ایک کو نہیں ہوتی۔ جو بھی اس کی نگاہ رحمت کا مستحق ٹھہرے، اس کو جہنم کے گڑھے سے نکال کر جنت کی بلندیاں عطا فرمادے۔ راستہ اس نے بتا دیا ہے، یعنی ’’جو چاہے ایمان لائے اور جو چاہے نہ مانے، بے شک انسان کا اس میں پورا اختیار ہے، لیکن توفیق اسی کے ہاتھ میں ہے‘‘۔
ایمان وہ تحفہ ربانی ہے، اللہ تعالی جس کو چاہے عطا فرمائے۔ جس کو یہ نعمت گھر بیٹھے گئی، وہ اگر سراپا تشکر بن جائے تب بھی شاید حق ادا نہ ہو۔ اپنے بارے میں خوش گمانی کبھی کبھی انسان کو کہیں سے کہیں پہنچا دیتی ہے، تاہم نیکی کا چھوٹے سے چھوٹا عمل انسان اللہ تعالیٰ کی توفیق سے کرتا ہے۔