القاعدہ کے خلاف کارروائی

اگر ممکن ہو ذہنوں کو بدل دو
کچلنا مسئلہ کا حل نہیں ہے
القاعدہ کے خلاف کارروائی
پاکستان اور افغانستان میں القاعدہ کی طاقت کو کمزور کرنے کے لئے جاری امریکی مہم میں ایک طرف کامیابی ملنے کا دعویٰ کیا جارہا ہے تو دوسری طرف عراق اور شام میں امریکی فوج کو القاعدہ کے جنگجو دستوں سے محاذ آرائی میں سخت گیر مزاحمت کا سامنا ہے۔ پاکستان میں القاعدہ کے عالمی آپریشن کے سربراہ کی موت کی اطلاع کے بعد اس تنظیم کو شدید دھکا پہونچنے کی خبریں مغربی میڈیا کے لئے پرکشش بن گئی ہیں۔ گڑبڑ زدہ شمالی وزیرستان کا علاقہ پاکستان کا سب سے اہم عسکری گروپ کا گڑھ سمجھا جاتا ہے۔ یہاں امریکی ڈرون حملے میں القاعدہ کے اعلیٰ لیڈر سمیت 5 دہشت گردوں کی ہلاکت کی اطلاع سے عمر فاروق نامی القاعدہ لیڈر کو پاکستان اور افغانستان میں القاعدہ کا انچارج سمجھا جاتا تھا۔ اس حملے میں ان کی کمان میں کام کرنے والے دستے کو پوری طرح تباہ کرنے کا دعویٰ کرنے والے سکیورٹی عہدیدار نے اطمینان کا اظہار کیا ہے کہ انہیں القاعدہ کے خلاف مہم میں کامیابی ملی ہے مگر اس نتیجہ پر پہنچنا مشکل ہے کہ القاعدہ کی طاقت کا مکمل صفایا کردیا گیا ہے۔ پاکستان کے ایک کے بعد دیگر القاعدہ کے اہم کارکنوں کے صفایا کی اطلاعات سے امریکہ کو دہشت گردی کے خلاف تقریباً ایک دہے پرانی جنگ میں کامیابی مل رہی ہے لیکن پاکستان کو سب سے زیادہ نقصان اس دہشت گردی سے ہورہا ہے۔ پاکستان کے بشمول برصغیر کے ملکوں میں دہشت گردی کے خطرات پائے جاتے ہیں۔ ہندوستان میں دہشت گرد حملوں کے واقعات کے درمیان القاعدہ کے اہم رکن کی موت دہشت گرد تنظیموں کو کمزور بنانے میں ایک اہم کامیابی سمجھی جارہی ہے۔ حال ہی میں جموں و کشمیر میں فوجی کیمپ پر دہشت گرد حملوں کے بعد ہندوستان میں بھی سخت چوکسی اختیار کی گئی ہے۔ صدر امریکہ براک اوباما کے جنوری میں دورۂ ہندوستان سے قبل بھی دہلی میں لشکر طیبہ کی جانب سے دہشت گرد حملوں کی انٹلیجنس رپورٹ تشویشناک ہے۔ القاعدہ یا اس کے محاذی گروپس کے خلاف امریکہ کے بشمول تمام ملکوں کی مشترکہ کارروائیوں کے باوجود یہ دہشت گرد خطرات برقرار رہتے ہیں تو اس کو دہشت گردی کے خلاف قطعی کامیابی قرار نہیں دیا جاسکتا۔ امریکہ پر 11 ستمبر 2001ء کو حملے کے بعد سے ساری دنیا میں دہشت گردی کے خلاف جنگ کے نام پر بڑی طاقتوں نے اپنی کارروائیوں کے ذریعہ زائد از 50 ہزار افراد کو ہلاک کیا ہے۔ امریکی حملوں کے بعد عالمی طاقتوں نے افغانستان میں جو تباہی لائی ہے، اس کے اثرات سے القاعدہ اور طالبان کو زیادہ نقصان تو نہیں پہونچایا جاسکا مگر افغانستان اور پاکستان کی معیشت تباہ کردی گئی۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کو تقریباً 80 بلین ڈالر کا نقصان ہونے کی پاکستان کے وزیر داخلہ نثار علی خاں نے حال ہی میں پارلیمنٹ کو مطلع کیا تھا۔ امریکہ نے اب دعویٰ کیا ہے کہ اسامہ بن لادن کی ہلاکت کے بعد اس نے عدنان الشکری جمعہ کو ہلاک کردیا ہے جبکہ یہ شخص اسامہ یا ایمن الظواہری کی طرح القاعدہ کا معروف لیڈر نہیں تھا۔ اس کے باوجود امریکہ نے اس کے خلاف کارروائی میں کامیابی کو اہمیت دی ہے تو وہ عراق اور شام میں اپنی فوج کی ناکامیوں کو چھپانے کی کوشش کررہا ہے۔ امریکہ نے 2011ء میں پاکستان کے شہر ایبٹ آباد میں فوجی کارروائی میں اسامہ بن لادن کو ہلاک کرنے کے بعد اطمینان کی سانس لی تھی۔ اب القاعدہ ختم ہوجائے گی مگر القاعدہ کے موجودہ سربراہ ایمن الظواہری نے اپنی تنظیم میں رکنیت سازی مہم کو تیز کرنے اس کو وسعت دینے کا دعویٰ کیا ہے۔ ایمن الظواہری اور ان کے گروہ کے افراد کے تعلق سے کہا جاتا ہے کہ یہ مصلحت پسند ہیں اور القاعدہ کو وسعت دینے کے لئے اپنے پیشرو اسامہ بن لادن سے زیادہ پرجوش طور پر سرگرم ہیں۔ دہشت گردی کے خلاف امریکی جنگ میں افغانستان اور پاکستان کی حکومتوں کو فوج کی مکمل حمایت و تعاون کے باوجود مغربی اتحادی فوج کو القاعدہ یا اس کے محاذی گروپس کا صفایا کرنے میں قطعی کامیابی نہیں مل رہی ہے۔ اب اگر القاعدہ کا صفایا کرنے میں کامیابی کا جشن منانے کی تیاری ہوتی ہے تو ایسے میں دولت اسلامیہ یا داعش کی شکل میں ابھرنے والی تنظیم طاقتور بنتی ہے تو اس کا مطلب صاف ہوگا کہ امریکہ کی ساری طاقت جھونکنے کے باوجود القاعدہ اور اس کی محاذی تنظیمیں ختم نہیں ہوں گی جبکہ مغربی طاقتوں کو مزید چیلنجس کا سامنا کرنا پڑے گا۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ کیلئے جو حکمت عملیاں بنائی گئی تھیں، اس میں ناکامی کے باوجود اگر امریکہ اور اس کے اتحادی ملک اپنی پالیسیوں اور حکمت عملی پر نظرثانی کرنے سے کتراتے ہیں تو انہیں مزید مسائل و چیلنجس کا سامنا کرنا ہوگا۔ ایسے میں مزید لاکھوں انسانی زندگیاں تلف کرنے کی کارروائیوں سے افسوسناک بلکہ اندوہناک تنازعات پیدا ہوں گے۔