اقوام متحدہ جنرل اسمبلی

ناخداؤں پہ یقیں سوچ سمجھ کر کرنا
لاکے ساحل پہ ڈبو دیں گے ڈبونے والے
اقوام متحدہ جنرل اسمبلی
اقوام متحدہ جنرل اسمبلی میں ہمیشہ کی طرح اس مرتبہ بھی مشرق وسطیٰ کی صورتحال خاص کر اسرائیل اور فلسطین کے بارے میں عالمی ادارہ کے رکن ممالک کی رائے اور تقاریر کا متن یکساں اور ماضی کے موقف کا عکاس ہی تھا۔ مشرق وسطیٰ میں بدامنی کے لئے ذمہ دار سمجھے جانے والے اسرائیل نے بھی فلسطین کو ہی نشانہ بنایا۔ صدر فلسطین محمود عباس اور وزیراعظم اسرائیل بنجامن نتن یاہو کی جنرل اسمبلی میں کی گئی تقاریر میں ہر سال کی طرح وہی جملے دہرائے گئے اور ایک دوسرے کے بارے میں اپنی رائے ظاہر کی گئی۔ محمود عباس اور نتن یاہو اس عالمی ادارہ سے اب تک 19 مرتبہ خطاب کرچکے ہیں۔ ہرسال ان کے لکچر میں ایک دوسرے کو انتباہ دینے اور خون ریزی کے واقعات کم کرنے کی جانب زور دیا جاتا رہا ہے۔ مشرق وسطیٰ کیلئے امریکہ کا موقف بھی وہی دہرایا جاتا ہے جو سابق میں دہرایا گیا تھا۔ صدر بارک اوباما نے اپنی میعاد کے آخری ایام میں جنرل اسمبلی سے اپنے آخری خطاب کے دوران فلسطین کے بارے میں امریکہ کی ہمدردیوں کا اظہار کرنے میں کوئی کوتاہی نہیں کی۔ اسرائیل کے بارے میں بظاہر ان کا خیال اتنا ہی تھا کہ یہ ملک فلسطین پر قبضہ برقرار نہیں رکھ سکتا۔ دونوں ممالک سفارتکاری کے ذریعہ ہی جنگ ختم کرسکتے ہیں۔ دونوں ممالک اسرائیل اور فلسطین کو آپس میں مل بیٹھ کر بات کرنے کا مشورہ بھی نیا نہیں ہے۔ ماضی میں اوباما کے پیشرو صدور نے فلسطین کے مسئلہ کو حل کرنے کیلئے اسرائیل کی قیادت کو ایک سے زائد مرتبہ بات چیت کی میز تک لانے کی کوشش کی ایک طرف وہ اسرائیل کی ہر ناجائز کارروائی پر چشم پوشی اختیار کرتا ہے۔ سابق صدر فلسطین یاسرعرفات کے دور میں ہی اوسلوا، کیمپ ڈیوڈ اور دیگر موقع پر بات چیت کے ذریعہ معاہدوں کی کوشش کی جاچکی ہے۔ ہر کوشش کے بعد اسرائیل کی فوجی کارروائیوں میں ہزاروں فلسطینیوں کی جانیں ضائع ہوئیں۔ ہر تنازعہ کا حل جب بات چیت میں تلاش کرنے پر زور دیا جاتا ہے تو اسرائیل کو فوجی طاقت کے استعمال کی اجازت کیوں دی جاتی ہے۔ اسرائیل کے توسیع پسندانہ عزائم کو روک دینے اور فلسطینی علاقوں پر اسرائیلی فوج کے قبضہ کو برخاست کرانے کیلئے عالمی دباؤ ڈالا نہیں جاتا۔ فلسطینیوں کیلئے یہ ہرگز ممکن نہیں ہیکہ وہ اسرائیل کے ظلم کے آگے خودسپردگی اختیار کرلیں۔ یہودی آباد کاری کی پالیسیوں پر تیزی سے گامزن اسرائیل کا سامنا کرنے کیلئے فلسطین کا ہر ایک بچہ تیار نظر آتا ہے۔ فلسطینی اراضی پر اسرائیلی قبضہ کو ہرگز برداشت نہ کرنے کا عہد کرنے والے فلسطینیوں کے حق میں عالمی طاقت کی معنی خیز خاموشی افسوسناک ہوتی ہے۔ صدر امریکہ اوباما کی میعاد چار ماہ ختم ہورہی ہے۔ ان کا خیال ہیکہ وہ اقوام متحدہ سلامتی کونسل کے ذریعہ مشرق وسطیٰ میں اسرائیل اور فلسطینی لڑائی کا حل نکالنے کیلئے پیرامیٹرس وضع کرسکتے ہیں، جس کے ذریعہ دونوں حلقوں کے درمیان امن کے عمل میں پیشرفت ہوگی۔ وزیراعظم نتن یاہو نے اسی جنرل اسمبلی سے اپنے خطاب میں صدر امریکہ کی امیدوں پر یہ کہتے ہوئے پانی پھیر دیا کہ وہ اسرائیل کے معاملہ میں کسی مداخلت کی کوشش کو مسترد کردیتے ہیں۔ ہم اقوام متحدہ کی جانب سے کسی بھی کوشش کو قبول نہیں کریں گے کہ اسرائیل کو کیا کرنا چاہئے اور کیا نہیں کرنا چاہئے۔ جب اسرائیلی لیڈر برسرعام اسمبلی میں موجود عالمی سفارتکاروں کے سامنے اپنے ارادوں اور عزائم کا اظہار کرتا ہے تو عالمی ارادوں کی افادیت اور قوت کا بھی اندازہ ہوجاتا ہے۔ اسرائیل کے نزدیک جب اس ارادہ کی کوئی اہمیت نہیں ہے تو مستقبل میں وہ کسی بھی طاقت کی بات تسلیم کرنے کیلئے کس طرح تیار رہے گا یہ ممکن نظر نہیں آتا۔ اسرائیل نے فلسطین میں نہ صرف ناجائز قبضے کئے ہیں بلکہ فلسطینیوں کے مکانات کو منہدم کرکے اپنے توسیع پسندانہ پراجکٹ کو جاری رکھا ہے۔ غزہ اور دیگر اسلامی مقدس مقامات تک فلسطینیوں کی رسائی کو ناکام بنانے رکاوٹیں بھی کڑی کردی ہیں۔ یہ ایسی سچائی ہے جس پر عالمی طاقتیں چشم پوشی اختیار کرلی ہیں۔ اسی لئے اسرائیل اپنی ناجائز کارروائیوں کو ہی درست مان کر اندھادھند طریقہ سے پھیلتا جارہا ہے۔
رافیل جنگی طیاروں کی خریدی معاہدہ
ہندوستان نے فرانس سے 36 رافیل جنگی طیارے خریدنے کا معاہدہ کیا۔ اس کیلئے 59000 کروڑ روپئے کے مصارف آئیں گے۔ وزیردفاع منوہر پاریکر اور فرانس کے وزیردفاع جین یوبوزلی ڈرین کے درمیان معاہدہ پر دستخط ہوئے ہیں۔ 16 ماہ قبل وزیراعظم نریندر مودی نے ان جنگی طیاروں کی خریداری کیلئے ہندوستان کے منصوبے کا اعلان کیا تھا لیکن اس خریدی کے معاہدہ پر دستخط ایک ایسے وقت ہوتی ہے جب ہندوستان کے اپنے پڑوسی ملکوں کے ساتھ تعلقات کشیدہ ہیں۔ پاکستان کے ساتھ ہندوستان کا مسئلہ کشمیر کی وجہ سے نازک ہوتا جارہا ہے۔ دونوں ملکوں کی افواج کو سرحدوں پر چوکسی کیلئے تیار رکھنے کی قیاس آرائیوں کے درمیان اگر ہندوستان نے اتنے مہنگے رافیل جنگی طیارے خریدنے کے معاہدے کئے ہیں تو یہ دفاعی سلامتی کا حصہ ہے۔ جن طیاروں کیلئے خریدی ہورہی ہے یہ طیارے اس وقت عراق اور شام میں بمباری کیلئے استعمال کئے جارہے ہیں۔ ان طیاروں کے ذریعہ 3800 کیلو میٹر تک نشانہ لگایا جاسکتا ہے۔ پاکستان سے زیادہ ہندوستان کو چین سے خطرہ ہے۔ اسی لئے وہ چین کے بڑھتے ہوئے دباؤ کے باعث بہت کچھ دفاعی کوشش کرتے ہیں۔ ہندوستان کی دفاعی طاقت مضبوط ہے مگر حکومتوں کی ناقص پالیسیوں اور ہتھیاروں کی خریدی میں ہونے والی بے قاعدگیوں کی وجہ سے دفاعی شعبہ کیلئے خریدے گئے اسلحہ بعض اوقات ناکام ہونے کی رپورٹ بھی منظر پر آتی ہے۔ روس کے سابقہ 21 طیاروں کو ناقص ریکارڈ کے باعث انہیں فلائنگ کا فن یا تابوت سے تعبیر کیا جاچکا ہے۔ ان مگ 21 طیاروں کو تبدیل کرنا ہندوستانی فضائیہ کیلئے ایک مشکل ترین مرحلہ بن چکا ہے۔ لہٰذا روس کے ساتھ رافیل جنگی طیاروں کی خریداری میں کوئی غلطی سرزد ہوجاتی ہے تو اس سے ملک کا دفاعی منصوبہ پھر ایک بار ناکام ہوجائے گا۔ احتیاط ضروری ہے۔