اقلیتی کمیشنوں کیساتھ حکومت کا رویہ

مریضِ ہجر کے حالات سازگار نہیں
مزاجِ درد میں راحت دکھائی دیتی ہے
اقلیتی کمیشنوں کیساتھ حکومت کا رویہ
مرکزی حکومت کی ذمہ داریوں میں اگر کوتاہیاں سرزد ہونے لگیں تو انتظامی نظام میں جھول پیدا ہونا شروع ہوتا ہے، اسی طرح ریاستی حکومتوں کے لوگوں میں غیرذمہ داری، لاپرواہی اور من مانی کا چلن عام ہوجائے تو پھر خرابیوں کو دعوت دینے والے عوامل کا وقوع ہونا یقینی ہے۔ مسلمانوں یا اقلیتوں کے اُمور کی نگرانی، انصاف رسانی، مسائل کی یکسوئی کیلئے اقلیتی کمیشن قائم کئے گئے مرکز میں قومی اقلیتی کمیشن اور ریاستوں میں ریاستی اقلیتی کمیشن کو مسلمانوں اور دیگر کمزور طبقات کے مسائل کی یکسوئی کے لئے قائم کیا گیا جب ان کمیشنوں کے قیام کو ایک مجبوری مان لیا گیا ہو تو اس کے ساتھ معاندانہ سلوک بہرحال ہو کر رہتا ہے یہ اور بات ہے کہ کمیشنوں کی ذمہ داری حاصل ہونے کے بعد متعلقہ عہدیدار بھی سرکار کی رحمت و زحمت کا شکار ہوتے رہتے ہیں۔ یہ خبر افسوسناک ہے کہ قومی اقلیتی کمیشن کے ساتھ بھی حکومت کا رویہ سوتیلے پن کا مظہر ہے۔ کمیشن کے ارکان کی تعداد گھٹ رہی ہے اور اس کے لئے نئے تقررات کا معاملہ لیت و لعل میں ڈال دیا گیا۔ ریاستی اقلیتی کمیشن تلنگانہ اور آندھرا پردیش کے ساتھ بھی سرکار کا معاملہ پٹھو عہدیداروں کی بدمستیوں کے مترادف ہے۔ ریاستی اقلیتی کمیشن کی دفتر کو راتوں رات تبدیل کرنے کے واقعہ کا نوٹ لیا جائے تو اس میں کئی خرابیوں کا پتہ چلے گا۔ جب کوئی کام سر انجام دیا جاتا ہے تو اس میں صرف چند عہدیداروں کا رول نہیں ہوتا، اس کے لئے سرپرستی کرنے والی طاقتیں بھی ہوتی ہیں۔ حکومتیں چاہے وہ قومی ہوں یا ریاستی، اقلیتوں اور ان کے تعلق سے انجام دیئے جانے والے اُمور کو یکسر نظرانداز کرتے رہنے کی شکایات نئی نہیں ہیں۔ قومی اقلیتی کمیشن کو ہی مرکز نے نظرانداز کردیا ہے تو ریاستی سطح پر کام کرنے والے کمیشنوں کا حال اس سے مختلف نہیں ہوسکتا۔ قومی کمیشن میں 25 جنوری کے بعد ارکان کی تعداد صرف 2 رہ جائے گی جبکہ کمیشن میں 7 ارکان کا ہونا لازمی ہے۔ قومی کمیشن کے چیرمین فہیم احمد صرف ایک رکن کے ساتھ ملک بھر کی ریاستوں سے آنے والے اقلیتوں کے مسائل اور نمائندگیوں سے نمٹنے کا کام انجام دیں گے۔ کام کا بوجھ جب بڑھتا ہے تو اس کی کارکردگی کا بھی معیار بدل جاتا ہے۔ قومی سطح کے ادارہ کو ایک مفلوج جسم بناکر چھوڑ دیا جائے تو پھر مسلمانوں، اقلیتوں کے مسائل کی یکسوئی و انصاف رسانی کا جذبہ مفقود ہوجائے گا۔ اقلیتی کمیشن سے وابستہ ذمہ داروں کو اپنے فرائض کی انجام دہی میں مشکلات درپیش ہوں گے، مگر یہ لوگ بھی سرکار کے حضور دست بدستہ ہی ٹھہرے رہ سکتے ہیں کیونکہ سرکار کی ناراضگی مول لینے سے ان کی وقعت پر آنچ آئے گی۔ کمیشنوں کا قیام اور ان کی برقراری کا مسئلہ حکومتوں کے صوابدید پر رہ جائے تو پھر عوام کو ایسے ادارہ کی اہمیت کا بھی اندازہ ہونا چاہئے۔ قومی کمیشن میں ارکان کا تقرر عمل میں نہیں لایا جارہا ہے تو ریاستی کمیشنوں جیسے تلنگانہ اور آندھرا پردیش کے مشترکہ کمیشن کو مستقل دفتر سے محروم رکھا گیا ہے۔ کمیشن کا 3 سال میں چار مرتبہ دفتر تبدیل کردیا گیا۔ کمیشن کے سربراہ نے اپنے دفتر کی اچانک تبدیلی کیلئے جن عہدیداروں پر شبہ ظاہر کیا ہے، وہ تحقیق طلب ہے کیونکہ ریاست میں اوقافی جائیدادوں کا معاملہ نازک ہے اور یہ معاملے ان لیڈروں کے ہاتھوں میں ہیں جو ہر وقت سرکار کے تلوے چاٹ کر اپنا سیاسی کیریئر فروغ دیتے ہیں۔ تازہ واقعہ میں کمیشن کے دفتر کو راج بھون روڈ سے راتوں رات شانتی نگر علاقہ میں منتقل کیا گیا۔ دو بیڈ روم کے اس سرونٹ کوارٹر میں ریاستی اقلیتی کمیشن کے کام انجام دیئے جائیں گے۔ اسے بے رخی یا زیادتی کہئے کہ چند عہدیداروں کے اشاروں پر یہ منتقلی عمل میں لانے کی شکایت کی گئی ہے۔ کمیشن کے ذمہ داروں نے ریاست کے اوقافی جائیدادوں کے ساتھ ہونے والی دھاندلیوں کی سی پی آئی تحقیقات کرانے پر زور دیا تھا۔ وقف اراضیات کے بڑے قابضین کو یہ بات پسند نہیں آئی ۔ اگر واقعی ایسا ہوا ہے تو معاملہ کی سنگینی کو محسوس کرتے ہوئے کارروائی کی جانی چاہئے یا کارروائی کرانے کے لئے اقلیتوں کا دَم بھرنے والی سیاسی قیادتوں کو آگے آنا چاہئے۔ قومی اقلیتی کمیشن اور ریاستی اقلیتی کمیشن کے بارے میں حکومتوں کا رویہ واقعی تعصبانہ اور جانبدارانہ ہے تو اس کو فوری دور کرکے غلطیوں، کوتاہیوں کا ازالہ ضروری ہے جس کے بعد ہی سمجھا جائے گا کہ مرکزی اور ریاستی حکومتوں کے قول و فعل میں یکسانیت ہے، ورنہ حکومت کے اقلیت نواز فیصلے صرف انتخابات کے موقع پر مسلمانوں کے ووٹ لینے کا دھوکہ ثابت ہوں گے۔