اقلیتی مالیاتی کارپوریشن پر صدر نشین و بورڈ آف ڈائرکٹرس کا راج

آندھرائی تسلط برقرار ، کارپوریشن کی عدم تقسیم کا بہانہ ، آندھرائی طاقتوں سے تلنگانہ کے لیے خطرہ
حیدرآباد۔ 29 ۔ جنوری (سیاست نیوز) یوں تو علحدہ تلنگانہ ریاست کو وجود میں آئے 7 ماہ کا عرصہ گزرچکا ہے لیکن ابھی بھی بعض اداروں پر آندھرائی طاقتوں کا تسلط برقرار ہے۔ تلنگانہ حکومت کی جانب سے مختلف مشترکہ وسائل پر آندھراپردیش حکومت کی دعویداری اور تلنگانہ کے ساتھ ناانصافی کے رویہ کے خلاف مرکز سے رجوع ہوچکی ہے اور بعض امور میں عدالت سے رجوع ہونے کا فیصلہ کیا گیا۔ دراصل آندھرائی طاقتوں کو تلنگانہ پر تسلط قائم کرنے کی عادت سی ہوگئی ہے اور تلنگانہ کے بھولے بھالے عوام ان کے چکر میں آجاتے ہیں۔ ریاست کی تقسیم کے باوجود کئی اہم اداروں پر تلنگانہ حکومت اپنی دعویداری اور حصہ داری کیلئے جدوجہد کر رہی ہے۔ اسی طرح کے اداروں میں ایک اقلیتی ادارہ بھی شامل ہے جس پر گزشتہ 11 ماہ سے آندھرائی طاقتوں کا کنٹرول ہے۔ ریاست کی تقسیم کے باوجود اقلیتی فینانس کارپوریشن پر سابق کانگریس حکومت کی جانب سے نامزد کردہ بورڈ آف گورنرس راج کر رہے ہیں۔ سابق چیف منسٹر کرن کمار ریڈی نے ریاست کی تقسیم اور چیف منسٹر کے عہدہ سے استعفیٰ سے عین قبل بعض اداروں پر تقررات کئے تھے، ان میں اقلیتی فینانس کارپوریشن شامل ہیں۔ 17 فروری کو صدرنشین اور 15 ڈائرکٹرس کے ساتھ بورڈ تشکیل دیا گیا جس کی مدت 3 سال مقرر کی گئی۔ حکومت کی برقراری سے متعلق غیر یقینی کیفیت اور چیف منسٹر کا استعفیٰ پیش کرنے کے دن ہی بورڈ آف گورنرس نے کسی طرح جائزہ حاصل کر لیا۔ کسی بھی حکومت کی تبدیلی کی صورت میں سابقہ حکومت کے نامزد کردہ افراد اخلاقی طور پر مستعفی ہوجاتے ہیں۔ کارپوریشنوں کے صدور نشین اور بورڈ آف ڈائرکٹرس بھی عام طور پر اسی اصول پر گامزن ہوتے ہیں لیکن اقلیتی فینانس کارپوریشن کا عجیب حال ہے۔ آندھرا سے تعلق رکھنے والے صدرنشین اور بورڈ آف ڈائرکٹرس کے ارکان نہ صرف آندھرا بلکہ تلنگانہ کے امور میں مداخلت کر رہے ہیں۔ کارپوریشن کی عدم تقسیم کا بہانہ بناکر صدرنشین اور ڈائرکٹرس نہ صرف برقرار ہیں بلکہ کارپوریشن سے سارے فوائد حاصل کر رہے ہیں۔ اقلیتی اداروں میں یہ واحد ادارہ ہے جہاں سابق چیف منسٹر نے لمحہ آخر میں تقررات کئے تھے۔ تلنگانہ حکومت اور خاص طور پر برسر اقتدار پارٹی کے اقلیتی قائدین کو اس ادارہ پر آندھرائی تسلط کے بارے میں شائد اطلاع نہیں یا پھر جان بوجھ کر انجان بنے ہوئے ہے۔ کرن کمار ریڈی نے صدرنشین سمیت 11 ڈائرکٹرس کو نامزد کیا تھا جن کا شمار کانگریس پارٹی کے حامیوں میں ہوتا ہے۔ ان کے علاوہ 4 سرکاری عہدیداروں کو بطور ڈائرکٹر شامل کیا گیا۔ صدرنشین کا تعلق ضلع گنٹور سے ہے جبکہ بورڈ آف ڈائرکٹرس میں 8 کا تعلق آندھرا اور صرف 3 کا تلنگانہ سے ہے۔ آندھرائی قائدین کے غلبہ والے اس کارپوریشن پر حکومت کی کوئی توجہ نہیں ہے۔ موجودہ صدرنشین و ڈائرکٹرس دونوں ریاستوں کے امور میں مداخلت کر رہے ہیں اور عہدیدار بے بس دکھائی دے رہے ہیں۔ فینانس کارپوریشن کی عدم تقسیم کے باعث عہدیدار صدرنشین اور بورڈ آف ڈائرکٹرس کے دباؤ کو قبول کرنے کیلئے مجبور ہیں۔ تلنگانہ حکومت نے کارپوریشن میں تلنگانہ کیلئے علحدہ بینک اکاؤنٹ کھول دیا ہے جس میں تلنگانہ کا بجٹ منتقل کیا جارہا ہے جبکہ کارپوریشن کی تقسیم سے متعلق فائل سکریٹریٹ میں زیر التواء ہے ۔ بتایا جاتا ہے کہ آندھرائی بورڈ جس کا تعلق سابق حکومت سے ہے ، وہ تلنگانہ اور آندھرا دونوں بجٹ سے فوائد حاصل کر رہا ہے۔ آندھراپردیش کی حکومت اقلیتی اداروں کو تقررات کے حق میں ہے، تاہم اداروں کی تقسیم کا عمل مکمل نہ ہونے کے باعث وہ مجبور دکھائی دے رہی ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ کارپوریشن کی تقسیم کے بعد اگر بورڈ آف ڈائرکٹرس اخلاقی طورپر مستعفی نہ ہوں تو حکومت انہیں برخاست کرنے کا اختیار رکھتی ہے۔ اگر تلنگانہ حکومت اقلیتی اداروں کی تقسیم میں اسی طرح تاخیر کرے گی تو تلنگانہ کا بجٹ آندھرائی طاقتوں کے قبضہ میں رہیگا۔