اقلیتی فینانس کارپوریشن کی قرض اسکیم ، بے قاعدگیوں پر سیاست کا انکشاف درست ثابت

 

کارپوریشن دامن بچانے کوشاں ، بینک پر الزام تراشی

دستاویزات کا غلط استعمال ، ایک کی درخواست پر دوسرے کو قرض کی منظوری ، درخواست گذار کا دفتر پر احتجاج
حیدرآباد۔ 24 ۔ فروری (سیاست نیوز) اقلیتی فینانس کارپوریشن کی قرض سے مربوط سبسیڈی فراہمی اسکیم میں مبینہ بے قاعدگیوں سے متعلق سیاست کے انکشافات آج اس وقت درست ثابت ہوگئے، جب کارپوریشن نے ایک درخواست گزار کے دستاویزات کو استعمال کرتے ہوئے دوسرے شخص کو دو لاکھ روپئے سبسیڈی اسکیم منظوری کردی۔ سرور نگر رنگا ریڈی سے تعلق رکھنے والے درخواست گزار کی جانب سے داخل کردہ دستاویزات کا غلط استعمال کرتے ہوئے یہ اسکام منظر عام پر آیا اور امیدوار کے والدین نے آج حج ہاؤز پہنچ کر سخت احتجاج کیا۔ درخواست گزار کے والد جو ایک صحافی ہیں ، انہوں نے میڈیا کے نمائندوں کو کارپوریشن کی ان دھاندلیوں سے واقف کرایا اور کہا کہ وہ صحیفہ نگار کی حیثیت سے تفصیلات کو اکٹھا کرنے میں کامیاب ہوئے جبکہ ایک عام غریب آدمی یہ کام نہیں کرسکتا اور اس کے دستاویزات پر کسی اور کو سبسیڈی جاری کردی جائے تو کسی کو پتہ بھی نہیں چلے گا ۔ دلچسپ بات  یہ ہے کہ اس اسکام میں اس قدر صفائی سے بے قاعدگی کی گئی کہ درخواست گزار کا آدھار کارڈ اور دیگر اسنادات استعمال کئے گئے لیکن ریکارڈ میں نام ، راشن کارڈ اور عمر کو تبدیل کردیا گیا۔ اسکیم کی منظوری سے متعلق احکامات میں درخواست گزار کا پتہ اور ساتھ میں اس شخص کا بھی پتہ موجود ہے جس کے نام پر رقم جاری کردی گئی۔ رنگا ریڈی میں داخل کی گئی ، اس درخواست کے دستاویزات کا استعمال کرتے ہوئے رام نگر حیدرآباد کے شخص کو دو لاکھ روپئے کی سبسیڈی جاری کردی گئی۔ کارپوریشن کی دھاندلیوں کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ 27 جنوری 2015 ء کو کارپوریشن نے درخواست کو منظوری دی اور 29 جنوری یعنی صرف 2 دن میں بینک کو منظوری کا مکتوب روانہ کردیا گیا اور بینک نے 7 فروری کو رقم جاری کردی ۔ اس قدر تیز رفتار دھاندلی سے صاف ظاہر ہے کہ سبسیڈی اسکیم میں درمیانی افراد اور کارپو ریشن کے عہدیداروں کی ملی بھگت ہے ، ورنہ اس طرح کی دھاندلی ممکن نہیں۔ درخواستوں کی جانچ کا کام کارپوریشن انجام دیتا ہے اور منظوری کے بعد سبسیڈی جاری کرنا بھی کارپوریشن کا کام ہے۔ کارپوریشن کی جانب سے سبسیڈی کی اجرائی کے بعد بینک اپنے حصہ کی رقم بطور قرض جاری کرتا ہے۔ اس معاملہ میں کارپو ریشن کے حکام اپنا دامن بچانے کیلئے بینک کی غلطی ثابت کرنے کی کوشش کر رہے ہیں جبکہ بینک حکام کا کہنا ہیکہ کارپوریشن کی منظوری کے بعد ہی وہ قرض جاری کرتا ہے۔ یہ انکشاف اس وقت منظر عام پر آیا جب درخواست گزار شیخ امتیاز الدین کے والد جو صحافی ہیں، انہوں نے جاریہ سبسیڈی اسکیم کیلئے آن لائین درخواست داخل کرنے کی کوشش کی جیسے ہی آدھار کارڈ نمبر ٹائیپ کیا گیا کمپیوٹر نے اسے قبول نہیں کیا اور یہ میسیج آیا کہ اس آدھار کارڈ پر سبسیڈی حاصل کرلی گئی ہے۔ انہوں نے جب تفصیلات حاصل کی تو آدھار کارڈ ان کے فرزند کا ہے لیکن منظوری کے مکتوب میں شیخ امتیاز الدین کی جگہ سید غوث پاشاہ کا نام لکھا گیا تھا ۔ اس کے علاوہ والد کا نام بھی تبدیل کردیا گیا۔ گزشتہ سال کی اس اسکیم کے تحت ایک لاکھ روپئے سبسیڈی اور دو لاکھ روپئے قرض صرف دو دن میں جعلی شخص کو جاری کردیا گیا۔ اگر درخواست گزار کے والد نئی درخواست داخل کرنے کی کوشش نہ کرتے تو اس اسکام کا پتہ نہ چلتا۔ واضح رہے کہ اینٹی کرپشن بیورو نے بھی اس اسکیم میں دھاندلیوں کا انکشاف کیا تھا اور عہدیداروں کو واقف کرایا کہ استفادہ کنندگان کے انتخاب میں درمیانی افراد اور کارپوریشن کے ملازمین کی ملی بھگت ہے۔ کارپوریشن نے ابھی تک گزشتہ سال کی اسکیم کے منظورہ امیدواروں کو آج تک سبسیڈی جاری نہیں کی ہے لیکن اس اسکام میں صرف دو دن میں ساری کارروائی مکمل کرلی گئی۔ اب جبکہ جاریہ سال 80 فیصد تک سبسیڈی کی اسکیم کا اعلان کیا گیا ہے ، حکومت کو چاہئے کہ وہ اینٹی کرپشن بیورو کی ٹیم تشکیل دیتے ہوئے اسکیم کی نگرانی کرے ۔ اس کے علاوہ گزشتہ سال کی منظورہ تمام درخواستوں کی جانچ کی جائے تاکہ دستاویزات کے بیجا استعمال کے واقعات کا پتہ چلایا جائے ۔ واضح رہے کہ سکریٹری اقلیتی بہبود سید عمر جلیل نے اعتراف کیا تھا کہ اسکیم میں بے قاعدگیوں کو روکنے کیلئے کوئی مشنری موجود نہیں ہے۔