حیدرآباد۔/2اکٹوبر، ( سیاست نیوز) عام طور پر اردو زبان سے ناانصافی کیلئے حکومت کو مورد الزام ٹھہرایا جاتا ہے لیکن جب اقلیتوں کے ادارے ہی اردو سے ناانصافی کرنے لگیں تو پھر ان کی شکایت کس سے کی جائے گی۔ کچھ اسی طرح کا حال آج محکمہ اقلیتی بہبود کی تقریب میں دیکھنے کو ملا۔ اقلیتی فینانس کارپوریشن کی جانب سے شروع کی گئی آٹو رکشا فراہمی اسکیم کے آغاز کیلئے حج ہاوز میں تقریب منعقد کی گئی تھی جس میں مرکزی وزیر بنڈارودتاتریہ، ڈپٹی چیف منسٹر محمد محمود علی کے علاوہ اقلیتی بہبود کے اداروں کے تمام اعلیٰ عہدیدار موجود تھے۔ اس تقریب میں اقلیتی فینانس کارپوریشن کا لوگو جاری کیا گیا۔ کارپوریشن کی تقسیم کے بعد تلنگانہ اقلیتی فینانس کارپوریشن کا نیا لوگو تیار کیا گیا ہے۔ لوگو کی اجرائی کے بعد وہاں موجود افراد کو یہ دیکھ کر حیرت ہوئی کہ اس ’ لوگو ‘ میں اردو شامل نہیں ہے۔ صرف انگریزی زبان میں ’’ تلنگانہ اسٹیٹ مایناریٹیز فینانس کارپوریشن ‘‘ درج کیا گیا ہے۔ ہونا تو یہ چاہیئے تھا کہ ریاست کی دوسری سرکاری زبان کی حیثیت سے اردو کو لوگو میں شامل کیا جاتا۔ حکومت کے سرکاری لوگو میں اردو شامل ہے لیکن اقلیتی فینانس کارپوریشن نے اردو کو نظرانداز کرتے ہوئے ہر کسی کو حیرت میں ڈال دیا۔ جب اقلیتی ادارے ہی اردو کو اس کا مستحقہ مقام دینے میں ناکام رہیں تو پھر دیگر اداروں سے کیا توقع کی جاسکتی ہے۔ حال ہی میں تلنگانہ پبلک سرویس کمیشن کے لوگو میں اردو شامل کرنے کیلئے نمائندگی کی گئی۔ اس کے علاوہ تلنگانہ آر ٹی سی کے لوگو میں اردو شامل نہیں ہے۔ اب جبکہ حکومت کھمم ضلع میں اردو کو دوسری سرکاری زبان کا درجہ دینے کی تیاری کررہی ہے، اقلیتی اداروں کو چاہیئے کہ وہ اردو کے فروغ پر توجہ دیں۔ حیرت تو اس بات پر ہے کہ اقلیتی بہبود کے اردو داں عہدیداروں میں سے کسی نے اس کوتاہی پر توجہ نہیں دلائی بعد میں جب ایک اعلیٰ عہدیدار سے اس بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے صرف یہ کہہ کر اپنا دامن بچانے کی کوشش کی کہ اقلیتی فینانس کارپوریشن نے لوگو کی تیاری کے سلسلہ میں ان سے مشاورت نہیں کی۔