اقلیتی طلبہ کیلئے اوورسیز اسکالرشپس اسکیم تعطل کا شکار

حیدرآباد ۔ 31 ۔ اگست (سیاست  نیوز) اقلیتی طلبہ کیلئے بیرونی یونیورسٹیز میں تعلیم پر اسکالرشپ سے متعلق اسکیم پر عمل آوری تعطل کا شکار ہوچکی ہے۔ حکومت کی اعلیٰ اختیاری کمیٹی نے موصولہ درخواستوں کی دوبارہ جانچ اور تمام شرائط کی تکمیل کا جائزہ لینے کے بعد پہلے اجلاس میں منظورہ 280 درخواستوں میں سے 86 کو نامنظور کردیا ہے۔ اس طرح اوورسیز اسکالرشپ اسکیم پر عمل آوری محکمہ اقلیتی بہبود میں تنازعہ کا شکار بن چکی ہے۔ ایسے طلبہ جنہوں نے اس اسکیم کیلئے درخواستیں داخل کی تھی، وہ اپنی درخواستوں کو مسترد کئے جانے کی اطلاع سے مایوسی کا شکار ہے ۔ باوثوق ذرائع نے بتایا کہ اعلیٰ اختیاری کمیٹی نے حکومت کی جانب سے جاری کردہ شرائط کی بنیاد پر درخواستوں کا دوبارہ جائزہ لیا۔ کمیٹی نے پہلے مرحلہ میں 280 درخواستوں کو اوورسیز اسکالرشپ کیلئے اہل قرار دیتے ہوئے فہرست کو قطعیت دی تھی۔ 280 منتخب درخواست گزاروں کی فہرست بھی تیار کرلی گئی لیکن انہیں ویب سائیٹ پر اپ لوڈ نہیں کیا گیا۔ کمیٹی نے دوبارہ 280 منتخب درخواستوں کا جائزہ لینے کے بعد پہلے مرحلہ میں 86 درخواستوں کو مسترد کردیا جس کیلئے شرائط کی عدم تکمیل وجہ بتائی جارہی ہے ۔ ذرائع نے بتایا کہ حکومت نے 19 مئی کو جی او ایم ایس 24 میں جو شرائط پیش کی تھی، ان میں سے تمام شرائط کا جائزہ لئے بغیر ہی 280 امیدواروں کا انتخاب کرلیا گیا تھا۔ پہلی مرتبہ منعقدہ اجلاس میں امیدواروں کیلئے لازمی طورپر موجود GRE یا GMAT امتحانات میں کامیابی کی شرط سے استثنیٰ دیا گیا تھا، جس کے باعث 280 امیدوار مستحق قرار پائے۔ تاہم بعد میں اعلیٰ عہدیداروں نے اس شرط سے انحراف کو حکومت کی پالیسی کے مغائر تصور کرتے ہوئے جی آر ای اور جی میٹ نہ رکھنے والے امیدواروںکی درخواستوں کو مسترد کردیا۔ چونکہ حکومت اس اسکیم کے تحت امیدواروں کو 10 لاکھ روپئے کی اسکالرشپ فراہم کر رہی ہے ، لہذا وہ چاہتی ہے کہ نامور اور بڑی یونیورسٹیز میں داخلہ حاصل کرنے والے طلبہ کو ہی یہ رقم منظور کی جائے۔ ایک اعلیٰ عہدیدار نے بتایا کہ امریکہ ، برطانیہ ، آسٹریلیا ، کینیڈا اور سنگا پور میں کئی چھوٹی اور غیر معروف یونیورسٹیز موجود ہیں جن میں داخلہ کیلئے جی آر ای یا جی میٹ ضروری نہیں۔ بیشتر طلبہ نے اس طرح کی یونیورسٹیز میں داخلہ حاصل کرتے ہوئے اسکالرشپس کیلئے درخواستیں داخل کی ہیں۔ حکومت ایسی درخواستوںکو قبول نہیں کریگی کیونکہ جی او میں جی آر ای اور جی میٹ کو لازمی قرار دیا گیا ہے ۔ ذرائع نے بتایا کہ سابق میں منظورہ 280 درخواستوں میں لڑکیوں کیلئے 33 فیصد نشستوں کے الاٹمنٹ کے شرط کو نظرانداز کردیا گیا ۔ اس کے علاوہ دیگر اقلیتی طبقات جیسے عیسائی ، سکھ ،پارسی اور جین طبقات کو ان کی آبادی کے مطابق نمائندگی نہیں دی گئی۔ لہذا درخواستوں کی دوبارہ جانچ کرتے ہوئے خواتین کیلئے 33 فیصد نشستوں کے الاٹمنٹ کو یقینی بنانے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ ذرائع نے بتایا کہ حکومت کی جانب سے منظورہ 25 کروڑ کے بجٹ کے ذریعہ صرف 250 امیدواروں کو ہی اسکالرشپ فراہم کی جاسکتی ہے۔ لہذا 250 نشستوں میں 33 فیصد نشستیں خواتین کو الاٹ کی جائیں گی ۔ اگر 33 فیصد کے مطابق درخواستیں وصول نہ ہوں تو دوبارہ اسکیم کی تشہیر کرتے ہوئے طالبات سے درخواستیں طلب کی جائیں گی۔  دیگر اقلیتی طبقات کو بھی ان کی آبادی کے مطابق کوٹہ الاٹ کیا جائے گا۔ بتایا جاتا ہے کہ سابق میں جس انداز میں امیدواروں کا انتخاب کیا گیا ، اس پر حکومت نے ناپسندیدگی کا اظہار کیا ہے اور جی او میں موجود تمام شرائط پر عمل آوری کی ہدایت دی ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ دیگر اقلیتی طبقات کی جانب سے حکومت سے نمائندگی کی گئی کہ اس اسکیم کے استفادہ کنندگان کے انتخاب کے سلسلہ میں قواعد کو نظر انداز کردیا گیا۔ اعلیٰ اختیاری کمیٹی کے اس تبدیل شدہ موقف کے باعث اقلیتی طلبہ میں بے چینی پائی جاتی ہے۔ پہلے مرحلہ میں 280 امیدواروں کے انتخاب کی اطلاع سے مطمئن امیدوار اب ویب سائیٹ پر درخواست مسترد کئے جانے کے موقف کو دیکھتے ہوئے مایوسی کا شکار ہیں۔ بتایا جاتا ہے کہ کئی یونیورسٹیز میں داخلہ کیلئے جی آر ای یا جی میٹ ضروری نہیں لیکن حکومت اس طرح کی یونیورسٹیز کو معتبر یونیورسٹیز کی فہرست میں نہیں مانتی۔ لہذا وہ صرف بڑی یونیورسٹیز میں داخلہ کی صورت میں اسکالرشپ فراہم کرے گی۔ ایسی یونیورسٹیز جہاں داخلہ کیلئے جی آر ای یا جی میٹ لازمی ہوگا۔ صرف ان یونیورسٹیز میں داخلہ پر اسکالرشپ فراہم کی جائے گی۔ الغرض اسکیم پر عمل آوری میں اچانک رکاوٹ اور بڑے پیمانہ پر درخواستوں کو مسترد کئے جانے سے طلبہ اور اولیائے طلبہ میں بے چینی پائی جاتی ہے ۔