اقلیتی بہبود کے ادارہ کی دو گاڑیوں کا دیگر شعبوں میں استعمال!

محکمہ کے شعبہ جات کیلئے بجٹ کی عدم اجرائی۔ تلنگانہ حکومت کے قول و فعل میں تضاد آشکار

حیدرآباد ۔ 31 جولائی (سیاست نیوز) محکمہ اقلیتی بہبود کے ایک ادارے کی دو گاڑیاں ایک چیف منسٹر کے دفتر دوسری سکریٹریٹ کے ایک اعلیٰ عہدیدار کے گھر میں چلائی جارہی ہے۔ یہی نہیں ان گاڑیوں کے اخراجات بھی وہی ادارہ برداشت کررہا ہے۔ اقلیتوں کی ترقی فلاح و بہبود کے دعوے کرنے والی تلنگانہ حکومت نے اقلیتی محکمہ کے تحت موجود شعبہ جات کو بجٹ نہ جاری کرتے ہوئے یہ ثابت کردیا کہ حکومت اقلیتوں سے صرف زبانی ہمدردی کررہی ہے۔ اقلیتوں کی ترقی اور فلاح و بہبود کیلئے قائم کئے گئے اقلیتی ادارے اقلیتوں سے زیادہ اعلیٰ عہدیداروں کی خوشحالی اور فلاح و بہبود کیلئے سرگرم ہے۔ چیف منسٹر کے سی آر نے محکمہ اقلیتی بہبود کی کارکردگی پر اپنی برہمی و ناراضگی کا بھی اظہار کیا ہے۔ شاید چیف منسٹر کو بھی اس بات کا علم نہیں ہوگا کہ اقلیتی بہبود کے عہدیدار کس طرح سے اپنے بچاؤ کا انتظام کرلیتے ہیں۔ فنڈز کی عدم اجرائی کا رونا رونے والے اس ادارے میں موجود گاڑیوں میں دو ایسی گاڑیاں ہیں جو دفتر چیف منسٹر اور سکریٹریٹ کے ایک اعلیٰ عہدیدار کے مکان پر چلائی جارہی ہے۔ ایسی کونسی مجبوری ہے جس کو پورا کرنے کیلئے محکمہ اقلیتی بہبود نے یہ فیصلہ کیا ہے۔ بجٹ منظور ہوکر 4 ماہ مکمل ہوچکے ہیں کئی ایسے اقلیتی ادارے ہیں جنہیں بجٹ سے ایک روپیہ بھی جاری نہیں کیا گیا ہے۔ اقلیتی طلبہ کے فیس ریمبرسمنٹ اور اسکالر شپس کی اجرائی میں ٹال مٹول کی پالیسی اختیار کی جارہی ہے جس سے پروفیشنل کورسیس کی تعلیم مکمل کرنے والے طلبہ آئندہ کی اعلیٰ تعلیم اور روزگار حاصل کرنے سے محروم ہیں کیونکہ فیس ریمبرسمنٹ کی عدم اجرائی کے باعث کالجس کامیابی حاصل کرنے والے طلبہ کو اسنادات دینے سے انکار کررہے ہیں۔ چیف منسٹر نے بجٹ سیشن کے دوران اقلیتی بیروزگار نوجوانوں کو بینکوں کے تعاون کے بغیر 50 فیصد سبسیڈی کے تحت قرض جاری کرنے کا اعلان کیا تھا جس پر آج تک کوئی عمل آوری نہیں ہوئی یہاں تک کہ اس کی حکمت عملی بھی تیار نہیں کی گئی۔ تین سال قبل اقلیتی بیروزگار نوجوانوں کو قرض دینے کا وعدہ کرتے ہوئے تقریباً 1.60 لاکھ درخواستیں وصول کی گئی تھیں جن میں صرف 18 ہزار درخواستوں کی یکسوئی کی گئی ہے۔ جاریہ سال اقلیتی مالیاتی کاپوریشن کیلئے بجٹ میں 160 کروڑ روپئے کی گنجائش فراہم کی گئی مگر ابھی تک صرف 25 کروڑ روپئے جاری کئے گئے ہیں۔ فنڈز کی عدم اجرائی سے کئی اسکیمات ٹھپ ہوکر رہ گئی ہیں۔ شادی مبارک اسکیم کو مشروط بنادیا گیا ہے۔ اورسیز اسکالر شپس کی اجرائی میں بھی ٹال مٹول کی پالیسی اپنائی جارہی ہے۔ اقلیتوں کیلئے منظور کردہ بجٹ کے تحت فنڈز نہیں جاری کئے جارہے ہیں مگر اعلیٰ عہدیداروں کو محکمہ اقلیتی بہبود کے ادارے سے گاڑیاں حوالے کرتے ہوئے اخراجات برداشت کئے جارہے ہیں جس سے مسلمانوں میں ناراضگی پائی جاتی ہے۔