اقلیتی بہبود کے اداروں میں ملازمین کی قلت ، اسکیمات پر عمل آوری میں رکاوٹ

حیدرآباد۔/9جنوری، ( سیاست نیوز) حکومت آندھرا پردیش نے اقلیتی بہبود کیلئے جاریہ مالیاتی سال 1027 کروڑ کا بجٹ مختص کیا ہے تاہم تمام اقلیتی اداروں کو ملازمین کی قلت کا سامنا ہے جس کے باعث اقلیتی اسکیمات پر بروقت عمل آوری میں رکاوٹ پیدا ہورہی ہے۔ محکمہ کے اعلیٰ عہدیداروں کا کہنا ہے کہ اقلیتی فینانس کارپوریشن، اقلیتی بہبود کمشنریٹ، اردو اکیڈیمی، وقف بورڈ اور دیگر اداروں میں اسٹاف کی کمی کے باعث مکمل بجٹ خرچ نہیں ہوپارہا ہے کیونکہ موجودہ اسٹاف اسکیمات کیلئے درخواستوں کی بروقت یکسوئی میں ناکام ہے۔ اس صورتحال سے نمٹنے کیلئے اسپیشل سکریٹری اقلیتی بہبود سید عمر جلیل نے حکومت سے نمائندگی کا فیصلہ کیا ہے تاکہ تمام اداروں میں درکار اسٹاف کا تقرر کیا جاسکے۔ اقلیتی کمیشن نے بھی اقلیتی اداروں میں کیڈر اسٹاف کی کمی کو دور کرنے کیلئے حکومت سے نمائندگی کا فیصلہ کیا اور تمام اقلیتی اداروں میں موجودہ اسٹاف کی تعداد اور مخلوعہ جائیدادوں کے سلسلہ میں تفصیلات طلب کی ہیں۔

تمام اداروں کی تفصیلات حاصل ہونے کے بعد کمیشن حکومت سے نمائندگی کرے گا۔ اقلیتی کمشنریٹ کے تحت حکومت نے کئی اسکیمات کو رکھا ہے لیکن ان اسکیمات پر عمل آوری کیلئے درکار اسٹاف نہیں ہے۔ اگر کمشنریٹ کے موجودہ اسٹاف کی تعداد کو دیکھا جائے تو دیگر محکمہ جات کے کمشنریٹ کے مقابلہ میں اقلیتی بہبود کمشنریٹ میں ملازمین کی تعداد انتہائی کم ہے۔ آئندہ مالیتی سال سے کم ملازمین کے ساتھ ہی کمشنریٹ کو اسکالر شپ، فیس باز ادائیگی اور دیگر اسکیمات پر عمل آوری کرنی ہے۔حیدرآباد میں موجود ڈسٹرکٹ میناریٹی ویلفیر دفاتر نے اسٹاف کی کمی کے باعث عوام کو کئی ایک مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہاہے۔ کسی بھی اقلیتی اسکیم کیلئے عوام ڈسٹرکٹ میناریٹی ویلفیر آفیسر سے رجوع ہوتے ہیں لیکن افسوس کہ حیدرآباد اور رنگاریڈی ڈسٹرکٹ میناریٹی ویلفیر آفیسرس کے تحت اسٹاف نہیں۔ ڈی ایم ڈبلیو حیدرآباد کا دفتر حج ہاوز میں واقع ہے لیکن وہاں مستقل طور پر میناریٹی ویلفیر آفیسر کا گزشتہ کئی برسوں سے تقرر نہیں کیا گیا۔ اقلیتی فینانس کارپوریشن کے ایکزیکیٹو ڈائرکٹر ہی انچارج ڈبلیو ڈی ایم کی حیثیت سے خدمات انجام دے رہے تھے تاہم حال ہی میں رنگاریڈی کے ڈی ایم ڈبلیو مہیندر ریڈی کو حیدرآباد کی زائد ذمہ داری دی گئی ہے۔ حیدرآباد کے ڈی ایم ڈبلیو دفتر میں سپرنٹنڈنٹ، 2یو ڈی سی، ایل ڈی سی اور اسٹینو کی جائیدادیں مخلوعہ ہیں اور وہاں بعض وظیفہ یاب ملازمین کے ذریعہ فائیلوں کی یکسوئی کی جارہی ہے۔ مکہ مسجد اور شاہی مسجد کے سپرنٹنڈنٹس کو جبری طور پر ڈی ایم ڈبلیو دفتر میں کام کرنے پر مجبور کیا جارہا ہے۔

رنگاریڈی سے تعلق رکھنے والے ایک کلرک کے ذمہ سارا دفتر ہے۔ اسی طرح رنگاریڈی میں بھی اسٹاف کی کمی کے باعث ڈسٹرکٹ میناریٹی ویلفیر آفیسر کو مسائل کی یکسوئی میں دشواریوں کا سامنا ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ دونوں اضلاع کے دفاتر میں یہ عہدے کئی برسوں سے مخلوعہ ہیں اور اس سلسلہ میں وزیر اقلیتی بہبود اور سکریٹری اقلیتی بہبود سے بارہا نمائندگی کی گئی۔ دلچسپ بات تو یہ ہے کہ کئی اضلاع میں ابھی تک مستقل ڈی ایم ڈبلیو کا تقرر نہیں کیا گیا اور اقلیتی فینانس کارپوریشن کے ایکزیکیٹو ڈائرکٹرس انچارج ڈی ایم ڈبلیو کی حیثیت سے خدمات انجام دے رہے ہیں۔ قواعد کے اعتبار سے صرف سرکاری عہدیدار ہی ڈی ایم ڈبلیو کے عہدہ پر خدمات انجام دے سکتا ہے لیکن فینانس کارپوریشن کے نان گزیٹیڈ ملازمین انچارج ڈی ایم ڈبلیو کی حیثیت سے گزیٹیڈ عہدیدار کی دستخطیں کررہے ہیں۔ حکومت کو فوری ہر ضلع میں ڈسٹرکٹ میناریٹی ویلفیر آفیسرس اور ماتحت عہدیداروں کے تقرر پر توجہ دینی چاہیئے۔