اسکیمات پر موثر عمل آوری کے لیے بھی ڈپٹی چیف منسٹر محمد محمود علی تن دہی سے سرگرم
حیدرآباد۔/2ڈسمبر، ( سیاست نیوز) اقلیتی اداروں کی کارکردگی بہتر بنانے اور اسکیمات پر موثر عمل آوری کیلئے تلنگانہ حکومت نے اقلیتی اداروں پر کڑی نظر رکھنے کا فیصلہ کیا ہے۔ ڈپٹی چیف منسٹر جناب محمد محمود علی جنہیں چیف منسٹر نے اقلیتی اُمور کی زائد ذمہ داری دی ہے، اقلیتی اداروں میں پائی جانے والی بے قاعدگیوں کو دور کرنے سخت اقدامات کا منصوبہ رکھتے ہیں۔ وہ اقلیتی اداروں کا اچانک معائنہ کرتے ہوئے ہر ادارہ کی کارکردگی کا جائزہ لینے اور برسر موقع عوامی مسائل کی سماعت و یکسوئی کا ارادہ رکھتے ہیں۔ مختلف گوشوں سے حکومت کو شکایات ملی ہیں کہ حج ہاوز جہاں کئی اقلیتی اداروں کے دفاتر موجود ہیں وہاں پیروکاروں اور درمیانی افراد کا عملاً راج چل رہا ہے جس کے باعث عوام اپنے معمولی مسائل کی یکسوئی کیلئے بھی راست طور پر عہدیداروں سے رجوع ہونے سے محروم ہیں۔ کسی بھی کام کے سلسلہ میں حج ہاوز میں موجود درمیانی افراد کے ذریعہ ہی عہدیداروں تک رسائی ممکن ہوتی ہے۔ اس سلسلہ میں شکایات کا ڈپٹی چیف منسٹر نے سختی سے نوٹ لیتے ہوئے حج ہاوز کا اچانک دورہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے جس کی اطلاع عہدیداروں اور میڈیا کو بھی نہیں دی جائے گی۔ حکومت نے بعض قائدین اور خفیہ اداروں کے ذریعہ اقلیتی اداروں کی کارکردگی کی نگرانی کا آغاز کیا ہے تاکہ اقلیتی اسکیمات میں بے قاعدگیوں کے امکانات کو روکا جاسکے۔ جناب محمود علی نے حج ہاوز میں جاری سرگرمیوں پر شدید ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ پیروکاروں اور بروکرس کو سختی سے کچل دیا جائے گا۔ حکومت درمیانی افراد کے رول کو ہرگز برداشت نہیں کرے گی۔ عوام راست طور پر عہدیداروں سے رجوع ہوں اور عہدیداروں کی ذمہ داری ہے کہ وہ عوامی مسائل کی یکسوئی کیلئے دستیاب رہیں۔ حکومت کو شکایات میں بتایا گیا ہے کہ بعض سیاسی قائدین کے علاوہ صحافیوں کے بھیس میں درمیانی افراد سرگرم ہیں اور ان کی بعض عہدیداروں اور ملازمین سے ملی بھگت ہے جس کے نتیجہ میں عام آدمی کو دشواریوں کا سامنا ہے۔سیاسی قائدین جن کا تعلق دیگر جماعتوں سے ہے وہ ابھی بھی حج ہاوز پر اپنا کنٹرول برقرار رکھے ہوئے ہیں اور وہ اکثر و بیشتر اعلیٰ عہدیداروں کے ساتھ اینٹی رومس میں دکھائی دیتے ہیں۔ ڈپٹی چیف منسٹر نے کہا کہ اقلیتی اداروں میں سیاسی قائدین کا کوئی رول نہیں اور اگر وہ کسی مسئلہ پر نمائندگی کیلئے جائیں تو اس میں کوئی حرج نہیں لیکن ان کی جانب سے عہدیداروں پر دباؤ یا رقومات کرتے ہوئے مسائل کی یکسوئی کی کوششیں ناقابل برداشت ہیں۔