اقلیتی اداروں پر نامزد عہدوں کے عدم تقررات ، اقلیتوں میں مایوسی

کرنسی بحران کا بہانہ ، چیف منسٹر تلنگانہ کے سی آر کا وعدہ وفا نہ ہوسکا
حیدرآباد۔یکم ڈسمبر، ( سیاست نیوز) چیف منسٹر کے چندر شیکھر راؤ نے دسہرہ کے موقع پر اقلیتی اداروں پر جلد تقررات کا اعلان کیا تھا لیکن اقلیتوں کو یہ دیکھ کر مایوسی ہوئی کہ چیف منسٹر ایک طرف تقررات کا عمل جاری رکھے ہوئے ہیں لیکن اہم اقلیتی اداروں پر ابھی تک تقررات نہیں کئے گئے۔ کرنسی بحران کا بہانہ بناکر اقلیتی اداروں کے تقررات کے معاملہ کو ٹال دیا گیا لیکن چیف منسٹر اپنی مرضی کے افراد کو حکومت کے مشیروں کی حیثیت سے تقرر کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہیں۔ چیف منسٹر نے سابق چیف سکریٹری راجیو شرما کو اپنا خصوصی مشیر اور سابق رکن پارلیمنٹ جی ویویک کو حکومت کے مشیر برائے بین ریاستی مسائل مقرر کیا ہے۔ یہ دو تقررات ایک ہی دن میں کئے گئے لیکن حیرت اس بات پر ہے کہ حکومت کے مشیروں میں ایک کا بھی تعلق مسلم اقلیت سے نہیں ہے جبکہ چیف منسٹر نے دسہرہ کے موقع پر مسلم قائدین کو تیقن دیا تھا کہ ریاست کے ایک سینئر ترین ریٹائرڈ مسلم آئی اے ایس عہدیدارکو اقلیتی اُمور کا مشیر مقرر کیا جائے گا۔ چیف منسٹر کے اعلان کے تین ماہ گذرنے کے باوجود آج تک یہ تقرر عمل میں نہیں آیا جبکہ دیگر افراد کے تقررات جاری ہیں۔ حکومت اقلیتوں کی بھلائی کے حق میں بلند بانگ دعوے کرتی ہے اور 12 فیصد تحفظات کی فراہمی کا اہم مسئلہ درپیش ہے۔ ایسے میں اقلیتی اُمور کیلئے تجربہ کار مشیر کا تقرر ناگزیر ہے لیکن پتہ نہیں کیوں چیف منسٹر نے اعلان کے باوجود اس مسئلہ کو ٹال دیا ہے۔ دلچسپ بات تو یہ ہے کہ چیف منسٹر کے اعلان کے بعد ڈپٹی چیف منسٹر نے ایک جائزہ اجلاس طلب کیا جس میں مذکورہ مسلم عہدیدار کو بھی بطور خاص مدعو کیا گیا تھا۔ بتایا جاتا ہے کہ حکومت کی دوست جماعت کی جانب سے مذکورہ مسلم عہدیدار کی مخالفت کی جارہی ہے کیونکہ ان کا شمار انتہائی اصول پسند اور دیانتدار عہدیداروں میں ہوتا ہے۔ مسلمانوں کو تحفظات کی فراہمی کی ابتدائی کارروائی میں بھی ان کا پرنسپال سکریٹری بی سی ویلفیر کی حیثیت سے اہم رول رہا ہے۔ ایسے وقت جبکہ چیف منسٹر تمام طبقات کو خوش کرنے کیلئے مختلف اہم عہدوں پر تقررات کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہیں، مسلم مشیر کی کمی صاف طور پر دکھائی دے رہی ہے۔یہ اس لئے بھی ضروری ہے کیونکہ اقلیتی بہبود کا قلمدان چیف منسٹر کے پاس ہے اور اگر مشیر کا تقرر کیا گیا تو انہیں اقلیتوں سے متعلق فیصلے کرنے میں مدد مل سکتی ہے۔ اس کے علاوہ پارٹی کے اقلیتی قائدین نامزد عہدوں پر تقررات میں تاخیر کے سبب مایوسی کا شکار ہیں۔ انہیں وقفہ وقفہ سے دلاسہ دیا جاتا ہے لیکن ان کی امید کب پوری ہوگی کہا نہیں جاسکتا۔