اقلیتوں کے تئیں حکومت تلنگانہ کی سنجیدگی بے نقاب ، ماضی کی حکومتوں کے طرز پر عمل

زبانی وعدے و ہمدردی ، عملی اقدامات نظرانداز ، بجٹ میں اضافہ کا اعلان ، اجرائی میں حیرت انگیز انکشافات
حیدرآباد۔/2اپریل، ( سیاست نیوز) حکومت کی جانب سے اقلیتوں کے ساتھ زبانی ہمدردی اور وعدوں پر اکتفاء کیا جاتا ہے جبکہ وعدوں کی تکمیل پر کوئی توجہ نہیں دی جاتی۔ اقلیتی بہبود کے بجٹ میں اضافہ کا اعلان کرتے ہوئے اقلیتوں کی دلجوئی کی گئی لیکن بجٹ کی اجرائی کا جائزہ لیں تو حکومت کی سنجیدگی بے نقاب ہوجائے گی۔ سابق کانگریس حکومتوں نے بھی اقلیتی بہبود کے سلسلہ میں بجٹ میں مختص کردہ رقم کبھی بھی مکمل طور پر جاری نہیں کی۔ یہ روایت آج علحدہ تلنگانہ ریاست میں بھی برقرار ہے۔ 2014-15مالیاتی سال کے اختتام کے بعد اقلیتی بہبود کے بجٹ کی اجرائی کا جائزہ لینے پر حیرت انگیز انکشافات منظر عام پر آئے ہیں۔ حکومت نے اقلیتی بہبود کیلئے 1030 کروڑ روپئے مختص کئے تھے لیکن 533 کروڑ روپئے ہی جاری کئے گئے جن میں سے 250کروڑ لمحہ آخر میں جاری کئے گئے جس کا خرچ کرنا محکمہ کیلئے ممکن ہی نہیں تھا۔ باوثوق ذرائع کے مطابق اقلیتی بہبود کے تحت مختلف اسکیمات کیلئے صرف 210کروڑ روپئے خرچ کئے گئے اور تقریباً 800کروڑ روپئے سرکاری خزانہ میں واپس ہوچکے ہیں۔ حکومت کی جانب سے مالیاتی سال کے اختتامی ماہ یعنی مارچ میں جاری کئے گئے 260کروڑ میں سے بہت کم رقم ہی خرچ کی جاسکی اور باقی بجٹ سرکاری خزانہ میں واپس ہوگیا۔ اقلیتی بہبود کے بجٹ کی اجرائی اور اس کے خرچ کی اس صورتحال کو دیکھتے ہوئے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ بیورو کریسی بجٹ کی اجرائی کے سلسلہ میں کس حد تک سنجیدہ ہے۔ حکومت نے بجٹ تو مختص کردیا لیکن اس کی اجرائی کی ذمہ داری بیورو کریسی پر ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ اقلیتی بہبود کے عہدیداروں کی جانب سے مسلسل نمائندگی کے باوجود محکمہ فینانس کے عہدیداروں نے بجٹ کی اجرائی میں دلچسپی نہیں دکھائی جس کے نتیجہ میں 2014-15کے دوران صرف210کروڑ روپئے خرچ کئے جاسکے۔ کئی اہم اسکیمات کا بجٹ جاری نہیں کیا گیا۔ چیف منسٹر چندر شیکھر راؤ نے اقلیتی بہبود کے بجٹ کو گرین چینل کے تحت کرنے کا تیقن دیا ہے۔ اگر اس پر عمل کیا جائے تو یقینی طور پر اقلیتی بہبود کا بجٹ زیادہ سے زیادہ خرچ کیا جاسکتا ہے۔ باوثوق ذرائع کے مطابق جن اہم اسکیمات کا بجٹ جاری نہیں کیا گیا اس میں اقلیتوں کو سبسیڈی کی اجرائی سے متعلق 51کروڑ اور وقف بورڈ کی گرانٹ اِن ایڈ کے 53کروڑ شامل ہیں۔ دلچسپ بات تو یہ ہے کہ حکومت نے جامعہ نظامیہ میں آڈیٹوریم کی تعمیر کیلئے 9کروڑ 60لاکھ روپئے منظور کئے تھے لیکن محکمہ فینانس کے تساہل کے سبب یہ رقم جاری نہیں ہوسکی۔ حکومت نے وقف بورڈ کی گرانٹ اِن ایڈ کے تحت یہ رقم منظور کی تھی لیکن محکمہ فینانس نے مالیاتی سال کے آخری دن جی او جاری کرتے ہوئے اسکولس اور ہاسٹلس کی عمارتوں کی تعمیر سے متعلق مد سے یہ رقم منظور کی۔ رقم کی اجرائی کیلئے اڈمنسٹریٹیو آرڈر علحدہ طور پر جاری کرنا پڑتا ہے۔ لہذا 9.6کروڑ کی منظوری سے متعلق جی او چند گھنٹوں بعد ہی بے فیض ثابت ہوا کیونکہ یہ رقم سرکاری خزانہ میں واپس ہوگئی۔بتایا جاتا ہے کہ محکمہ فینانس نےL.O.C. سسٹم کے تحت جامعہ نظامیہ کے بجٹ کو منظوری دی تھی جس کے تحت تعمیر کے دوران کام کی پیشرفت کو دیکھتے ہوئے بجٹ جاری کیا جاتا ہے۔ حکومت کو اب 2015-16کے بجٹ میں دوبارہ 9.6کروڑ روپئے منظور کرنے ہوں گے۔اجمیر شریف میں رباط کی تعمیر کیلئے 5کروڑ روپئے بھی جاری نہیں کئے گئے۔ اقلیتی طبقہ کے غریب افراد کو خودروزگار اسکیم کے تحت بینکوں کے قرض سے مربوط سبسیڈی فراہمی کیلئے 82کروڑ روپئے بجٹ میں مختص کئے گئے تھے لیکن 51 کروڑ 40لاکھ سرکاری خزانہ میں واپس ہوگئے کیونکہ یہ رقم محکمہ فینانس نے جاری نہیں کی۔ بتایا جاتا ہے کہ کرسچین فینانس کارپوریشن کے تحت اس اسکیم پر عمل آوری کیلئے 10کروڑ روپئے جاری کئے گئے۔ عیسائی طبقہ سے تعلق رکھنے والے عوامی نمائندوں نے مالیاتی سال کے اختتامی دن حکومت پر دباؤ بناتے ہوئے بجٹ کی اجرائی کو یقینی بنایا۔ کیا ہی بہتر ہوتاکہ اقلیتی طبقہ کے عوامی نمائندے بھی اقلیتی بہبود کے بجٹ کی اجرائی کے سلسلہ میں دلچسپی کا مظاہرہ کرتے۔