شکایتوں کی وصولی پر تحقیقات ، نئی اسکیم کے لیے ادخال درخواست کی آخری تاریخ ، 15 فروری مقرر
حیدرآباد ۔ یکم فروری (سیاست نیوز) تلنگانہ حکومت نے اقلیتیوں کی معاشی ترقی کیلئے 80 فیصد سبسیڈی کے ساتھ نئی اسکیم کا اعلان کیا ہے لیکن اقلیتی فینانس کارپوریشن کی جانب سے عمل کی جارہی اسکیم میں کئی بے قاعدگیوں کا انکشاف ہوا ہے۔ مختلف گوشوں سے شکایت پر اینٹی کرپشن بیورو ڈائرکٹر جنرل اے کے خان نے عہدیداروں کی ٹیم تشکیل دیتے ہوئے کارپوریشن کی بینکوں سے مربوط سبسیڈی کی اسکیم کی جانچ کرائی۔ کارپوریشن میں فی الوقت 50 فیصد سبسیڈی سے متعلق اسکیم پر عمل آوری جاری ہے جبکہ نئی اسکیم کیلئے درخواستوں کے ادخال کی آخری تاریخ 15 فروری مقرر کی گئی۔ باوثوق ذرائع کے مطابق اینٹی کرپشن بیورو کی تحقیقات میں سبسیڈی اسکیم میں کئی بے قاعدگیوں ، بڑے پیمانہ پر کرپشن اور کارپوریشن کے عہدیداروں و بروکرس میں ملی بھگت کا انکشاف ہوا ہے۔ تحقیقاتی ٹیم نے جو عبوری رپورٹ پیش کی ہے ، اس میں کئی بے قاعدگیوں کے انکشافات کئے گئے ، جس کے بعد سے اینٹی کرپشن بیورو نے فینانس کارپوریشن کی اسکیمات پر توجہ مرکوز کردی ہے۔ چیف منسٹر کے چندر شیکھر راؤ نے اے کے خاں کو اعلیٰ اختیاری کمیٹی کا صدر نشین مقرر کیا اور کرپشن کی روک تھام کیلئے سخت گیر اقدامات کی ہدایت دی۔ اے سی بی کے ذرائع کے مطابق کارپوریشن کے عملے اور درمیانی افراد کی ملی بھگت کے نتیجہ میں بڑے پیمانہ پر کرپشن جاری ہے اور ہر درخواست گزار سے 20 تا30 ہزار روپئے وصول کرتے ہوئے سبسیڈی اور بینک سے قرض منظور کیا جارہا ہے۔ تحقیقات میں پتہ چلا کہ فینانس کارپوریشن ، بروکرس اور بینکوں کے عہدیداروں کی ملی بھگت کے نتیجہ میں صرف ایسے افراد کو سبسیڈی اور قرض منظور ہورہا ہے جنہوں نے مطالبہ کی تکمیل کرتے ہوئے رقم ادا کردی۔ اے سی بی کو یہ جان کر حیرت ہوئی کہ امیدواروں کے انتخاب میں بھی بروکرس کا اہم رول ہے اور حقیقی درخواست گزار اسکیم سے استفادہ سے محروم ہیں۔ بروکرس درخواستوں کے ادخال سے لیکر امیدواروں کے انتخاب اور سبسیڈی کی اجرائی میں اہم رول ادا کر رہے ہیں ۔ فینانس کارپوریشن کا سارا ریکارڈ بروکرس کے ہاتھ میں ہے اور وہ بینکوں سے ملی بھگت کے ذریعہ سرکاری رقومات کو لوٹ رہے ہیں۔ محکمہ اقلیتی بہبود میں اسکیمات پر عمل آوری کی نگرانی کیلئے کوئی مشنری موجود نہیں ہے جس کے نتیجہ میں عہدیدار اور بروکرس کا راج چل رہا ہے۔ درخواست گزار جب بینک سے رجوع ہوتے ہیں تو انہیں بروکرس سے رجوع ہونے کا مشورہ دیا جارہا ہے جو کھلے عام 20 تا 30 ہزار روپئے کا مطالبہ کر رہے ہیں ۔ کئی ایسے امیدوار سامنے آئے جنہوں نے 30 ہزار روپئے ادا کرتے ہوئے سبسیڈی اور بینک سے قرض کی رقم حاصل کی ہے۔ تحقیقات میں اینٹی کرپشن بیورو کو پتہ چلا کہ بے قاعدگیوں کے ذریعہ حکومت کے کروڑہا روپئے ہضم کئے جارہے ہیں اور حقیقی مستحقین محروم ہیں۔ سرکاری رقومات کے بڑے پیمانہ پر غبن کو روکنے کیلئے حکومت نے اینٹی کرپشن بیورو کو متحرک کردیا ہے ۔ بتایا جاتا ہے کہ حیدرآباد میں سب سے زیادہ شکایات ملی ہیں اور اے سی بی کی ٹیم نے کئی درخواست گزاروں سے معلومات حاصل کیں اور عبوری رپورٹ میں چونکا دینے والے انکشافات کئے گئے ۔ ایک مرحلہ پر حکومت کو سفارش کی گئی کہ وہ سبسیڈی اسکیم کو ہی ختم کردیں اور اس کی جگہ کسی اور نئی اسکیم کا آغاز کیا جائے۔ 2014-15 ء کے منظورہ درخواست گزاروں میں 50 فیصد سے زائد افراد ابھی بھی سبسیڈی اور بینک قرض سے محروم ہیں، جب وہ کارپوریشن کے دفتر پہنچتے ہیں تو انہیں تشفی بخش جواب دینے والا کوئی نہیں ۔ اسکیمات میں شفافیت کیلئے حکومت نے ویجلنس آفیسر کا تقرر کیا اور سکریٹری اقلیتی بہبود سید عمر جلیل کو اس کی ذمہ داری دی گئی لیکن وہ اپنی زائد ذمہ داریوں کے سبب اس عہدہ کے فرائض نبھانے سے قاصر ہیں۔ حکومت کو چاہئے کہ وہ کسی آئی پی ایس عہدیدار کو اسکیمات پر عمل آوری کی نگرانی کیلئے ویجلنس آفیسر کے طور پر مقرر کرے تاکہ کروڑہا روپئے بجٹ کے غبن کو روکا جاسکے۔ اب جبکہ حکومت 50 تا 80 فیصد سبسیڈی کی نئی اسکیم کا آغاز کرچکی ہے، اسکیم پر موثر عمل آوری کیلئے پولیس عہدیداروں پر مشتمل نگرانکار ٹیم کی تعیناتی ضروری ہے جو وقتاً فوقتاً کارپوریشن اور بینکوں کا دورہ کرتے ہوئے صورتحال کا جائزہ لے سکے۔ باوثوق ذرائع نے بتایا کہ اینٹی کرپشن بیورو نے بروکرس سے ملی بھگت رکھنے والے بینک اور کارپوریشن کے عہدیداروں اور ملازمین پر خفیہ نگرانی شروع کردی ہے۔