اقلیتوں کی ترقی کیلئے حکومت کے دعوے کھوکھلے

مالیاتی سال کے اختتام تک 1030 کروڑ کے منجملہ صرف 200 کروڑ کی اجرائی
حیدرآباد 24 فبروری ( سیاست نیوز)تلنگانہ حکومت اقلیتوں کی فلاح و بہبود کے بلند بانگ دعوے کررہی ہے اور محکمہ اقلیتی بہبود آئندہ مالیاتی سال اقلیتوں کی بھلائی کیلئے 1200 کروڑ کے بجٹ کی توقع وابستہ کئے ہوئے ہیں۔ ان دعوؤں کے برخلاف جاریہ سال 10 ماہ کے دوران حکومت نے اقلیتی بہبود کے بجٹ کے سلسلہ میں جس سنجیدگی کا اظہار کیا وہ بجٹ کی اجرائی کی حقائق کی بنیاد پر اس کے دعوؤں کو کھوکھلا ثابت کرنے کیلئے کافی ہے۔ اعداد و شمار کے اعتبار سے دیکھا جائے تو حکومت نے بجٹ میں اقلیتی بہبود کیلئے 1030 کروڑ روپئے مختص کئے تھے لیکن مالیاتی سال کے اختتام تک صرف 200 کروڑ جاری کئے گئے ۔ وزیر فینانس کی جانب سے بجٹ کو قطعیت دینے کے سلسلہ میں طلب کئے گئے اجلاس میں اقلیتی بہبود کے عہدیداروں نے بجٹ کی منظوری ‘اجرائی اور بقایاجات کے بارے میں جو تفصیلات پیش کیں اس کی بنیاد پر حکومت سے آئندہ سال کے بجٹ کے خرچ کے سلسلہ میں زائد امید نہیں کی جاسکتی۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق جاریہ سال تقریبا 7 ایسی اسکیمات ہیں جن کیلئے ایک پیسہ بھی جاری نہیںکیا گیا۔ جن اسکیمات کے سلسلہ میں حکومت نے بجٹ مختص کرنے کے باوجود ایک روپیہ بھی جاری نہیں کیا ان میں اقلیتی طالبات کیلئے اقامتی اسکولس کی تعمیر ‘ تلنگانہ اسٹڈی سرکل میں اقلیتی طلبہ کو کوچنگ کی فراہمی اقلیتی طلبہ کے نامور مدارس میں داخلہ ‘ چرچس اور قبرستانوں کی نگہداشت کی اسکیم شامل ہیں۔ بجٹ کی اجرائی کے اس موقف کو دیکھتے ہوئے آئندہ سال کیلئے حکومت سے کچھ زیادہ توقع نہیں کی جاسکتی۔ حکومت نے جاریہ سال بھی اقلیتوں کیلئے کئی اعلانات کئے تھے لیکن 10 ماہ کے دوران بجٹ کی اجرائی میں محکمہ فینانس نے اقلیتی بہبود کے ساتھ جانبداری کا رویہ اختیار کیا۔ دلچسپ بات تو یہ ہے کہ اقلیتی امور کی نگرانی کیلئے کوئی علحدہ وزیر تک موجود نہیں۔ چیف منسٹر چندر شیکھر راو نے اقلیتی بہبود کا قلمدان اپنے پاس رکھا ہے جس کے سبب اقلیتی بہبود کے روز مرہ کے امور کی نگرانی کا کوئی نظم نہیں ۔ اقلیتی بہبود کی فائیلوں کی عاجلانہ یکسوئی اس لئے بھی ممکن نہیں کہ انہیں چیف منسٹر کے دفتر روانہ کیا جارہا ہے جہاں سے فائل کی جلد یکسوئی کا کوئی امکان نہیں ہوتا۔اقلیتی بہبود کے عہدیدار آئندہ سال کیلئے کئی نئی اسکیمات اور زائد بجٹ کے علاوہ مکمل خرچ کے بارے میں پُر امید ہے لیکن جاریہ سال کے تلخ تجربہ کو دیکھتے ہوئے یہ ممکن نظر نہیں آتا۔ 10 ماہ کے دوران حکومت نے چار مرحلوں میں بجٹ جاری کیا جو مجموعی طور پر 200کروڑ 24 لاکھ 80 ہزار ہے جبکہ 829 کروڑ 75 لاکھ 20 ہزار روپئے ابھی تک جاری نہیں کئے گئے اب جبکہ اسمبلی کے بجٹ اجلاس کا آغاز قریب ہے لہذا نئے بجٹ کی تیاری میں حکام مصروف ہوچکے ہیں لہذا مابقی بجٹ کی اجرائی کے امکانات موہوم ہے۔ اقلیتوں کیلئے مختص کردہ 1030 کروڑ میں پہلے مرحلے میں جون تا اگست 62 کروڑ 16 لاکھ 30 ہزار روپئے جاری کئے گئے جبکہ ستمبر میں 87 کروڑ 45 لاکھ 6ہزار کا بجٹ جاری کیا گیا۔ اکٹوبر اور نومبر میں 24 کروڑ 89لاکھ 92 ہزار جاری کئے گئے۔ ڈسمبر اور جنوری میں 25 کروڑ 73 لاکھ 52 ہزار کا بجٹ جاری کیا گیا۔ اجرائی کے ان اعداد و شمار کا جائزہ لیں تو پتہ چلتا ہے کہ کئی اداروں کیلئے محکمہ فینانس نے بجٹ تو جاری کردیا لیکن وہ ابھی تک متعلقہ اداروں تک نہیں پہنچا کیونکہ اس کیلئے بعض ضروری امور کی تکمیل باقی ہے۔ حکومت کی کافی تشہیر کی گئی شادی مبارک اسکیم کیلئے 100 کروڑ روپئے مختص کئے گئے لیکن صرف 20 لاکھ روپئے کی اجرائی عمل میں آئی۔ اسی طرح اقلیتی طلبہ کے اسکالر شپس کیلئے 100 کروڑ مختص کئے گئے تھے جن میں 15 کروڑ جاری کئے گئے ۔ فیس باز ادائیگی کیلئے مختص کردہ 400 کروڑ میں صرف 60 کروڑ روپئے جاری کئے گئے ۔ بینکوں سے مربوط سبسیڈی کی اجرائی اسکیم کیلئے 95 کروڑ مختص کئے گئے تھے جبکہ 3 مراحل میں 30 کروڑ 86 لاکھ روپئے ہی جاری کئے گئے۔ دائرۃ المعارف کیلئے منظورہ 2 کروڑ میں صرف 99 لاکھ جاری ہوئے ۔ اردو اکیڈیمی کے لئے مختص کردہ بجٹ میں صرف 3 کروڑ 28 لاکھ جاری ہوئے ہیں۔