سب پلان پر زور، مہم کا آج آغاز، گول میز کانفرنس اور دھرنا پروگرام
حیدرآباد ۔ 2 جولائی (سیاست نیوز) حیدرآباد پر دونوں ریاستوں آندھراپردیش و تلنگانہ کے کنٹرول کے مسئلہ پر ریاست کے صنعتکار اور سرمایہ دار ایک مرتبہ پھر معاشی انحطاط و عدم تحفظ کے خدشات کا شکار ہونے لگے ہیں۔ قانون ساز کونسل انتخابات کے دوران نوٹ برائے ووٹ اسکام اور فون ٹیاپنگ جیسے معاملات کے بعد ریاست تلنگانہ و آندھراپردیش کی حکومتوں کے درمیان جو ٹکراؤ کی صورتحال پیدا ہوئی ہے، اس سے تجارتی برادری میں خدشات پائے جاتے ہیں۔ حیدرآباد پر 10 سال تک کیلئے آندھراپردیش کے مساوی حق کے دعوے کے ساتھ تلگودیشم پارٹی حیدرآباد میں باضابطہ تحریک کا آغاز کرنے کا منصوبہ رکھتی ہے جبکہ تلنگانہ راشٹرا سمیتی تلگودیشم پارٹی کو باز رکھنے کیلئے مزید سخت گیر موقف اختیار کرنے کی منصوبہ بندی میں مصروف ہے۔ مجلس بلدیہ عظیم تر حیدرآباد کے حدود میں آندھراپردیش کو برابر کا کنٹرول حاصل ہونے کا ادعا کرتے ہوئے ٹی ڈی پی کی جانب سے آندھراپردیش پولیس کی تعیناتی عمل میں لائی جارہی ہے اور یہ استدلال پیش کیا جارہا ہیکہ آندھرائی اراکین قانون ساز کو تحفظ فراہم کیا جانا ضروری ہے۔ دونوں ریاستوں کے درمیان جاری یہ ٹکراؤ کی پالیسی ایک مرتبہ پھر حیدرآباد میں صنعتی و تجارتی حلقوں کو مشکلات میں مبتلاء کرسکتی ہے چونکہ 2009ء تا 2014ء جاری رہی سیاسی عدم استحکام کی صورتحال اور علحدہ ریاست تلنگانہ کیلئے ہڑتالیں و تحریک کے سبب حیدرآباد صنعتکاروں و تاجرین کے پسندیدہ مقامات کی فہرست میں کافی حد تک نیچے چلا گیا تھا لیکن 2014ء میں علحدہ ریاست تلنگانہ کی تشکیل اور نئی حکومت کے اقتدار پر آنے کے بعد حالات معمول پر آنے لگے تھے اور چند یوم قبل ہی رئیل اسٹیٹ اداروں نے اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے رپورٹ پیش کی تھی کہ علحدہ ریاست تلنگانہ کی تشکیل کے ایک برس گذرنے کے بعد حیدرآباد میں رئیل اسٹیٹ کے حالات بہتر ہونے لگے ہیں اور عنقریب اس میں مزید اضافہ دیکھا جاسکتا ہے لیکن یہ خوشیاں دیرپا ثابت نہیں ہورہی ہیں چونکہ دونوں ریاستوں کی حکومتوں نے حیدرآباد پر مکمل کنٹرول کے حصول کیلئے جدوجہد شروع کرنے کا ذہن تیار کرلیا ہے اور دونوں سیاسی جماعتوں کے درمیان ٹکراؤ کی صورتحال پیدا ہوچکی ہے۔ صنعتکاروں کی انجمنوں کا کہنا ہیکہ اگر حیدرآباد پر کنٹرول کے متعلق جذباتی مہم چلائی جاتی ہے تو ایسی صورت میں حیدرآباد کے مقامی عوام کا نقصان ہوگا جوکہ حیدرآباد میں ملک کے مختلف مقامات سے تعلق رکھنے والے افراد ذرائع معاش سے جڑے ہوئے ہیں۔ حیدرآباد پر کنٹرول کے سلسلہ میں اگر مہم شروع ہوتی ہے تو اس کے منفی اثرات تمام تجارتی و صنعتی اداروں پر مرتب ہوں گے اور یہ اثرات 2024ء تک تو رہیں گے ہی لیکن اس کے بعد بھی حالات کو معمول پر لانے کیلئے کافی وقت درکار ہوگا۔ تلنگانہ حکومت نے صنعتی پالیسی کو بہتر بناتے ہوئے سرمایہ کاروں کو راغب کرنے کی کوششوں کا آغاز کیا ہے لیکن اس کی یہ کوششیں حیدرآباد میں تحریک شروع ہونے کی صورت میں ناکام ہوسکتی ہیں چونکہ سرمایہ کاروں و تاجرین کی اولین ترجیح ریاست کی ترقی کے ساتھ ساتھ امن و امان کی برقراری کو یقینی بنانا ہوتی ہے۔ تلگودیشم رکن اسمبلی اے ریونت ریڈی کی جیل سے رہائی کے بعد جلوس میں کارکنوں کی تعداد اور جوش و خروش دیکھنے کے بعد تلگودیشم پارٹی نے فیصلہ کیا ہے کہ حیدرآباد بالخصوص مجلس بلدیہ عظیم تر حیدرآباد کے حدود میں پارٹی کا اثر اب بھی کافی ہے اسی لئے حیدرآباد میں تلگودیشم کی جانب سے حیدرآباد پر مساوی کنٹرول کیلئے تحریک چلائی جاسکتی ہے۔ اسی طرح ٹی آر ایس قائدین کا کہنا ہیکہ شہری حدود میں موجود بیشتر ارکان اسمبلی ٹی آر ایس کے ہمنوا یا حلیف بن چکے ہیں اسی لئے ٹی آر ایس کی جانب سے حیدرآباد پر مکمل کنٹرول کیلئے مہم چلانے میں پارٹی کو کوئی دشواری نہیں ہوگی بلکہ مہم کے آغاز کی صورت میں اس کے حوصلہ افزاء نتائج برآمد ہوں گے۔ دونوں سیاسی جماعتیں اپنے اپنے موقف کو درست قرار دینے کی ضد میں حیدرآباد کو معاشی اعتبار سے کمزور کرنے کی ذمہ دار بنتی جارہی ہیں چونکہ صنعتی و تجارتی برادری کو نقصان کی صورت میں سرمایہ کاری میں تخفیف اور زمینوں کی قیمتوں میں گراوٹ ریکارڈ کی جاسکتی ہے۔