اقلیتوں کو حقوق سے محروم رکھنے دستور کی غلط تشریح

نئی دہلی ۔ 13 جنوری ۔ (سیاست ڈاٹ کام) وزیر اقلیتی اُمور کے رحمن خان نے آج کہا کہ اقلیتوں کو ان کے جائز حقوق سے محروم رکھنے کیلئے دستور کی غلط تشریح کی جارہی ہے ۔ جن حقوق کے ذریعہ اقلیتوں کو شہریوں کے ایک طبقہ جیسا سلوک کرنے کی ضرورت ہے تاکہ انھیں فوائد سے استفادہ کرنے کا موقع فراہم کیا جاسکے ۔ مسٹر کے رحمن خاں جو اقلیتوں کے لئے کوٹہ کے کٹر حامی ہیں کہا کہ دستور کی اس انداز میں غلط تشریح کرنے کا رجحان ابھر رہا ہے کہ ان حقوق کو مذہب پر مبنی ظاہر کرتے ہوئے مذہبی اقلیتوں کو ان کے جائز حقوق سے محروم کردیا جائے ۔

دہلی کے ریاستی اقلیتی کنونشن جس میں وزیراعظم منموہن سنگھ نے بحیثیت مہمان خصوصی شرکت کی ، مسٹر رحمن خان نے اپنے خطاب میں مزید کہا کہ ’’جب اقلیتیں اپنی معاشی پسماندگی دور کرنے کیلئے حکومت سے بعض اقدامات کا مطالبہ کرتے ہیں یا پھر اپنی پسماندگی کی بنیاد پر تحفظات کا مطالبہ کرتے ہیں تو یہ کہتے ہوئے ان کے مطالبات مسترد کردیئے جاتے ہیں کہ مذہب کی بنیاد پر کوئی تحفظات یا اقدامات نہیں کئے جاسکتے ۔ انھوں نے کہا کہ شہریوں کا ایک طبقہ دستور کی دفعہ 15 اور 16 کے تحت اپنے لئے تحفظات یا ٹھوس اقدامات کا مطالبہ کررہا ہے جو مذہب پر مبنی نہیں ہے ۔ انھوں نے دستور کی دفعہ 15 اور 16 کی مثبت تشریح کی ضرورت پر زور دیا اور کہا کہ دستور اگرچہ مذہبی بنیاد پر امتیازی سلوک کی ممنونیت کرتا ہے لیکن اس مسئلہ کو مذہبی بنیاد پر مبنی نہ سمجھا جائے بلکہ ہر ایک مذہبی اقلیت کے ساتھ کوئی مخصوص مذہبی گروپ اس کو شہریوں کا ایک طبقہ متصور کیا جائے ۔

مسٹر رحمن خان نے کہا کہ یو پی اے حکومت نے پسماندہ اقلیتوں کیلئے 4.5 فیصد کوٹہ کا اعلان کیا تھا جس سے اکثر مسلمانوں کو فائدہ ہوسکتا تھا لیکن آندھراپردیش ہائی کورٹ نے اس کو دستوری طورپر ناجائز قرار دیتے ہوئے مسترد کردیا تھا ۔ حکومت اس حکم کیخلاف سپریم کورٹ سے رجوع ہوئی ہے ۔ انھوں نے کہا کہ ان کی وزارت رنگناتھ مصرا کمیشن کی تجاویز پر بھی غور کررہی ہے جو اقلیتوں میں پسماندہ طبقات کی شناخت و نشاندہی اور ان کی بھلائی کے اقدامات پر سفارش سے متعلق ہے ۔ اس کمیشن نے مسلمانوں کے لئے 10 فیصد اور دیگر اقلیتوں کے لئے پانچ فیصد کوٹہ کی سفارش کی ہے ۔