محکمہ اقلیتی بہبود کی نئی شرائط سے درخواست گذاروں کو پریشانی
حیدرآباد۔/4فبروری، ( سیاست نیوز) تلنگانہ حکومت اقلیتی بہبود کی اسکیمات سے زیادہ سے زیادہ خاندانوں کو فائدہ پہنچانے کیلئے شرائط میں نرمی کے حق میں ہے جبکہ اقلیتی بہبود کے عہدیدار دن بہ دن نئی نئی شرائط کے اضافہ کے ذریعہ درخواست گذاروں کے مسائل میں اضافہ کررہے ہیں۔ اس طرح حکومت کا مقصد فوت ہوسکتا ہے۔ حکومت کی فلاحی اسکیمات کے سلسلہ میں چیف منسٹر کے چندر شیکھر راؤ نے عہدیداروں کو واضح ہدایات جاری کی تھیں کہ وہ صرف چند بنیادی شرائط کی تکمیل کے ذریعہ زیادہ سے زیادہ خاندانوں کو فائدہ پہنچانے کی کوشش کریں لیکن ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اقلیتی بہبود کے عہدیداروں کو اسکیمات پر عمل آوری میں دلچسپی نہیں۔ چیف منسٹر نے شادی مبارک اسکیم کے سلسلہ میں شرائط میں سختی کی شکایات پر ہدایت دی تھی کہ والدین کے آدھار کارڈ کیلئے اصرار نہ کیا جائے بلکہ صرف ووٹر آئی ڈی کارڈ کو قبول کیا جائے لیکن عہدیداروں نے دوبارہ اچانک ویب سائیٹ پر اس شرط کو شامل کردیا ہے۔ شادی مبارک اسکیم کیلئے لڑکا اور لڑکی کے والدین کے آدھار کارڈ کو لازمی قرار دیا گیا، اس کے علاوہ لڑکی کا فون نمبر بھی درج کرنے کی شرط رکھی گئی۔ غریب خاندان جو آن لائن درخواستیں داخل کررہے ہیں انہوں نے ’سیاست‘ پہنچ کر شکایت کی کہ نئی شرائط کے سبب وہ اسکیم سے استفادہ کے موقف میں نہیں ہیں کیونکہ کئی خاندانوں کے پاس آدھار کارڈ موجود نہیں۔ اسمبلی میں چیف منسٹر نے ووٹر شناختی کارڈ کو قبول کرنے کی ہدایت دی تھی لیکن عہدیدار اس کے برخلاف کام کررہے ہیں۔ دوسری طرف بیرون ملک اعلیٰ تعلیم سے متعلق اوورسیز اسکالر شپ اسکیم کیلئے پیر سے اچانک نئی شرائط کا اضافہ کردیا گیا۔ درخواست گذار طلباء سے والدین کے آدھار کارڈ طلب کئے جارہے ہیں۔ آن لائن درخواستیں داخل کرنے کیلئے جب تک والدین کے آدھار کارڈ نمبر داخل نہ کئے جائیں اس وقت تک آن لائن درخواست فارم اوپن نہیں ہورہا ہے۔ طلباء اس نئی شرط سے کافی پریشان ہیں۔ سیاست ہیلپ لائن سنٹر میں آن لائن درخواستیں داخل کرنے والے طلباء نے عہدیداروں کے رویہ پر سخت تنقید کی اور کہا کہ پیر سے اس شرط کو شامل کردیا گیا۔ اگر والدین بقید حیات نہ ہوں تو ان کا ڈیتھ سرٹیفکیٹ پوچھا جارہا ہے یا پھر اگر والدین میں خلع ہوچکا ہو تو خلع سے متعلق سرٹیفکیٹ پیش کرنے کی شرط رکھی گئی ہے۔ اس طرح کی شرائط دراصل اسکیم پر عمل آوری میں مزید رکاوٹ کا سبب بن سکتی ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اچانک دونوں اسکیمات کیلئے شرائط میں سختی کس کے اشارہ پر کی گئی۔ ایک طرف حکومت زیادہ سے زیادہ خاندانوں کو اسکیمات سے مستفید کرنا چاہتی ہے تو دوسری طرف عہدیدار اپنی من مانی کے ذریعہ اقلیت دشمنی کا رویہ اختیار کئے ہوئے ہیں۔ دراصل اقلیتی بہبود کے اداروں اور عہدیداروں میں کوئی تال میل نہیں۔ کوئی بھی عہدیدار کسی بھی وضاحت کا جواب دینے تیار نہیں۔ صورتحال اس قدر دگر گوں ہے کہ ایک دوسرے کے فیصلوں کے خلاف میموز جاری کئے جارہے ہیں۔ چونکہ اقلیتی بہبود کا قلمدان چیف منسٹر کے پاس ہے لہذا محکمہ کا کوئی پرسان حال نہیں۔ ڈپٹی چیف منسٹر کو چاہیئے کہ وہ اقلیتی بہبود کے اُمور پر توجہ مرکوز کریں۔