اقلیتوں کا سماجی و مذہبی ڈاٹا جلد تیار کیا جائے

نئی دہلی۔ 28 اپریل (سیاست ڈاٹ کام) پارلیمانی پیانل نے 2011ء سماجی و مذہبی مردم شماری کی اشاعت میں غیرضروری تاخیر پر خفگی کا اظہار کیا۔ پیانل نے کہا کہ یہ بات فہم سے بالاتر ہے کہ حکومت حقیقی اعداد و شمار نہ ہونے کی صورت میں مختلف اسکیموں کیلئے نشانے کس طرح مقرر کرسکتی ہے۔ اس معاملے کی جلد از جلد یکسوئی پر زور دیتے ہوئے پارلیمانی اسٹانڈنگ کمیٹی برائے سماجی انصاف و اختیارات نے وزارت اقلیتی اُمور کو یہ ہدایت دی ہے کہ وہ وزارتِ مردم شماری و پروگرام عمل آوری سے رجوع ہوکر ڈاٹا کو جلد از جلد قطعیت دے۔ پیانل نے کہا کہ مختلف فرقوں یا اقلیتوں کی جو سطح غربت سے نیچے زندگی گذار رہے ہیں اور جو دوہری سطح غربت سے نیچے زندگی گزار رہے ہیں، ان کے اعداد و شمار کو جلد از جلد قطعیت دی جانی ضروری ہے، اس کے ساتھ ساتھ سطح غربت سے نیچے زندگی گزارنے والی آبادی میں ان کا فیصد بھی معلوم کیا جانا ضروری ہے۔ کمیٹی نے کہا کہ یہ اطلاعات ویب سائیٹ پر بھی دستیاب ہونی چاہئے۔ کمیٹی نے وزارتِ اقلیتی اُمور کے عمومی نوعیت کے جواب پر بھی ناراضگی ظاہر کی

جس نے کہا تھا کہ سطح غربت سے نیچے زندگی گذارنے والے اور دوہری سطح غربت سے نیچے زندگی گذارنے والے اقلیتی فرقے کے افراد کے بارے میں اس نے معلومات اکٹھا نہیں کی ہیں۔ حکومت نے 27 جنوری 2014ء کو 6 اقلیتی فرقوں کی نشاندہی کی تھی جن میں مسلمان، عیسائی، بدھسٹ، جین، سکھ اور پارسی شامل ہیں۔ ملک میں 2001ء مردم شماری کے بموجب ان تمام اقلیتی فرقوں کی مجموعی آبادی 19.38 کروڑ تھی۔ پیانل نے اس بات کی بھی نشاندہی کی کہ اہم اقلیتی فرقوں سے مربوط کئی پروجیکٹس مختلف ریاستوں جیسے مغربی بنگال، آسام، بہار، منی پور، ہریانہ وغیرہ نے اب تک شروع ہی نہیں کئے ہیں۔ کمیٹی نے ان اسکیموں پر قریبی نظر رکھے جانے کی ضرورت پر زور دیا ہے۔ پیانل نے یہ تجویز بھی پیش کی ہے کہ اقلیتوں میں اعلیٰ تعلیم کے مقصد سے ایسے ٹاؤنس میں جہاں یہ طلبہ حصول تعلیم کیلئے روانہ ہوتے ہیں، وہاں اقلیتی ہاسٹلس تعمیر کئے جانے چاہئیں۔