اقتدار کیلئے بی جے پی کی بے چینی

آج ہم دار پہ کھینچے گئے جن باتوں پر
کیا عجب کل وہ زمانے کو نصابوں میں ملیں
اقتدار کیلئے بی جے پی کی بے چینی
انتخابات میں عوام کے ووٹ حاصل کرتے ہوئے اقتدار حاصل کرنا ہر سیاسی جماعت اور امیدوار کا خواب ہوتا ہے ۔ اس کیلئے سیاسی جماعتیں باضابطہ مہم چلاتی ہیں اور رائے دہندوں کے سامنے اپنا ایک پروگرام اور ایک منشور پیش کرتی ہیں۔ عوام سے وعدے کئے جاتے ہیں۔ اگر ماضی میں اس جماعت کو اقتدار حاصل رہا ہو تو اس دور میں کئے گئے کارنامے گنواتے ہیں اور پھر عوام سے تائید کرنے کی اپیل کی جاتی ہے ۔ اس بار ہندوستان میں جو انتخابات ہو رہے ہیں ان میں تاہم تمام سیاسی اقدار اور اخلاقیات کو فراموش کرتے ہوئے بی جے پی کسی بھی قیمت پر اور کسی بھی طرح سے اقتدار حاصل کرنا چاہتی ہے تاکہ اسے اپنا فرقہ پرستی کا ایجنڈہ نافذ کرنے کا موقع مل سکے ۔ اسی کوشش کے طور پر نریندر مودی کو وزارت عظمی امیدوار نامزد کیا گیا ۔ ایسے امیدواروں کو ٹکٹ دئے گئے جن کے خلاف مسلمانوں کے قتل و غارت گری کے مقدمات درج ہیں۔ انتخابات سے پہلے فسادات کرواتے ہوئے ماحول کو گرمانے کی کوشش کی گئی ۔ انتخابات کے دوران نت نئے ہتھکنڈے اختیار کئے جارہے ہیں۔ اپنے انتخابی منشور میں کسی ترقیاتی ایجنڈہ یا منصوبہ کو پیش کرنے کی بجائے پھر ایک مرتبہ فرقہ پرستی کا راگ الاپا گیا ہے ۔ رام مندر کی تعمیر ‘ یکساں سیول کوڈ جیسے مسائل کو ایک بار پھر زندہ کرتے ہوئے عوام میں نفرت کے بیج کو بڑھاوا دینے کی کوشش کی گئی ہے ۔ اور اب ایک اور اعلان ہوا ہے کہ جو لوگ نریندر مودی کو ووٹ نہیں دینگے انہیں ہندوستان چھوڑ کر پاکستان چلا جانا چاہئے ۔ یہ اقتدار حاصل کرنے پارٹی اور اس کے امیدواروں کی بے چینی کی علامت ہے ۔ جیسے جیسے انتخابی مراحل آگے بڑھتے جا رہے ہیں ویسے ویسے بی جے پی کی بے چینی میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے ۔ یہ بیان عدم رواداری کو ظاہر کرتا ہے اور یہ تاثر ملتا ہے کہ بی جے پی ہر اس شخص و فرد کو برداشت کرنے تیار نہیںہے جو اس کے خلاف ووٹ دیتے ہوئے مودی کو اقتدار سونپنے کے خلاف ہے ۔ اقتدار کیلئے اس حد تک بے چینی کہ زبان پر کوئی کنٹرول نہ رہے مناسب نہیں ہے کیونکہ ہندوستان ایک جمہوری ملک ہے اور جمہوریت میں عوام کی رائے کا احترام سب سے اولین شرط ہے لیکن ایسا لگتا ہے کہ بی جے پی اس کو تسلیم کرنے تیار نہیں ہے ۔
عوام کی رائے کا احترام کرنے کی بجائے عوام کو یہ حکم دینا کہ ہر رائے دہندہ بی جے پی کے حق میں ووٹ دے یا پھر ملک چھوڑدے در اصل جمہوریت کی تضحیک ہے اور یہ اقتدار کی ہوس کی بدترین مثال بھی کہی جاسکتی ہے ۔ اگر بی جے پی کے ٹکٹ پر بہار میں نواڈا حلقہ سے مقابلہ کرنے والے گری راج سنگھ کی اس بات کو تسلیم کرلیا جائے تو پھر ہندوستان کے 70 فیصد سے زائد عوام کو ملک بدر کرنا ہوگا ۔ ایسے میں کیا اکثریتی رائے کے احترام کی کوئی گنجائش باقی رہ جاتی ہے ؟ ۔ پہلے تو ملک بھر میں پچاس فیصد کے آس پاس ہی رائے دہی ہوگا اور اس میں بھی اکثریت بی جے پی یا نریندر مودی کے خلاف ہوگی ۔ تو پھر کس کس کو ملک سے نکال کر ملک بدر کیا جاسکتا ہے ؟ ۔ اس طرح کی منفی ذہنیت ملک کیلئے خطرناک ہے اور اس ذہنیت کے ساتھ جمہوری عمل کا حصہ بننا اور بھی خطرناک کہا جاسکتا ہے ۔ بی جے پی کی اعلی قیادت نے حالانکہ گری راج سنگھ کے اس بیان سے اتفاق نہیں کیا ہے اور انہیں آئندہ اس طرح کے بیانات دینے پر تادیبی کارروائی کرنے کا انتباہ دیا ہے لیکن ایک حقیقت یہ ہے کہ بی جے پی قائدین کی اکثریت اسی ذہن کی حامل ہے اور خود بی جے پی کے وزارت عظمی امیدوار بھی شائد یہی چاہتے ہیں ۔پارٹی کس طرح سے ان کے ذہن کو تبدیل کر پائیگی ؟ ۔ کیا ان کی سوچوں پر بھی روک لگائی جاسکتی ہے ؟ ۔ اصل بات ذہنیت بدلنے کی ہے اور اس کیلئے زبانی تنبیہہ یا آئندہ کیلئے کسی کارروائی کی دھمکی کارگر یا موثر ثابت نہیں ہوسکتی ۔ اس کیلئے پہلے جمہوری عمل میں یقین کو مستحکم کرنے کی ضرورت ہے ۔
چند دن قبل جب اتر پردیش کے وزیر اعظم خان نے کارگل جنگ میں مسلمانوں کے رول پر زور دیا تو ان کے خلاف الیکشن کمیشن سے شکایت کی گئی ۔ اب خود بی جے پی آگے بڑھتے ہوئے کیوں گری راج سنگھ کے خلاف کمیشن سے رجوع نہیں ہوتی ؟ ۔ یہ ڈوغلی ذہنیت اور دوہرے معیارات بی جے پی کی حکمت عملی کا حصہ ہیں۔ کیا اس حقیقت سے انکار کیا جاسکتا ہے کہ گری راج سنگھ کو ساری بی جے پی کی تائید حاصل ہے ؟۔ کیا خود نریندر مودی ‘ جو اس ملک کی وزارت عظمی کی کرسی پر بیٹھنے کا خواب دیکھ رہے ہیں ‘ گری راج سنگھ کے بیان سے خود کوا ور اپنی پارٹی کو لاتعلق قرار دے سکتے ہیں ؟ ۔ دوسروں کو نشانہ بنانے والے کیا اپنی صفوں میں بہتری پیدا کرنے کوئی عملی ثبوت پیش کرسکتے ہیں ؟ ۔ ایسا بالکل نہیں ہوسکتا ۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ اقتدار کی ہوس میں اقدار اور اخلاقیات کو پامال کرنے کی کسی کو اجازت نہ دی جائے ۔