تلنگانہ میناریٹی ریزیڈنشیل ایجوکیشنل انسٹی ٹیوشن میں منتقلی، اسٹاف و طلبہ کو نقصان
حیدرآباد 2 اپریل (سیاست نیوز) ریاستی حکومت کی جانب سے جاری کردہ احکامات سرکاری اُردو میڈیم مدارس کے لئے غیر فائدہ مند اور ان کے وجود کے لئے خطرناک ثابت ہورہے ہیں۔ حکومت نے حالیہ جی او ایم ایس نمبر 9 جاری کرتے ہوئے 12 اقامتی اسکولس اور 2 جونیر کالجس کے وجود کو تجسس میں ڈال دیا ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ 30 مارچ 2017 ء کو جاری کردہ اس جی او کے تحت 12 اقامتی اسکولس اور دو جونیر کالجس ریزیڈنشیل اسکول سوسائٹی سے تلنگانہ میناریٹی ریزیڈنشیل ایجوکیشنل انسٹی ٹیوشن سوسائٹی میں منتقل ہوجائیں گے جس کے سبب نہ صرف ان اسکولس کے وجود کو خطرہ ہے بلکہ اس سے وابستہ تمام افراد بالخصوص طلبہ کے لئے یہ ایک ناقابل تلافی نقصان ثابت ہوگا۔ اس کے علاوہ اس اقدام سے لسانی اقلیت کی زبان کے تحفظ کے لئے دستور کے آرٹیکل 29 اور 30 میں موجودہ آزادی کی بھی خلاف ورزی ہوگی۔ چونکہ دستور کے آرٹیکل 29 اور 30 میں لسانی اقلیت کے زبان کا تحفظ ریاستی حکومتوں کی اولین ذمہ داری ہے۔ اس سلسلہ میں جی او ایم ایس نمبر 9 کی اجرائی کے بعد صدر میناریٹی ایمپلائز ویلفیر اسوسی ایشن تلنگانہ (میوا) نے حکومت سے نمائندگی کی ہے۔ صدر میوا مسٹر محمد مسعودالدین احمد نے ڈپٹی چیف منسٹر کو ایک یادداشت حوالے کی اور جی او کی اجرائی کے مرتب ہونے والے اثرات سے انھیں واقف کرایا۔ صدر میوا نے سیاست نیوز کو بتایا کہ اُنھوں نے تفصیلی یادداشت مشیر حکومت تلنگانہ برائے اقلیتی اُمور مسٹر عبدالقیوم خان کو پیش کی جس پر انھوں نے مؤثر اقدامات کا تیقن دیا۔ صدر میوا کے مطابق جی او ایم ایس نمبر 9 کے تحت 12 اقامتی اسکولس اور دو جونیر کالجس تلنگانہ میناریٹی ریزیڈنشیل ایجوکیشنل انسٹی ٹیوشن سوسائٹی میں منتقل ہوجائیں گے۔ ان 12 اسکولس میں 1986 ء اور 1988 ء میں علیحدہ علیحدہ احکامات کے ذریعہ اردو اور اقلیتوں کی ترقی کے لئے جاری کئے گئے ہیں کہ ان 12 اسکولس میں 6 اُردو میڈیم اور 6 انگلش میڈیم کے مدارس ہیں جبکہ دو جونیر کالج ایک بارکس اور ایک نظام آباد ناگارم میں قائم ہے۔ حکومت کے اس اقدام سے ان اقلیتی اداروں کو نقصان ہوگا۔ انھوں نے ریاستی حکومت کی جانب سے اقلیتوں کی ترقی کے لئے جاری اقدامات کو مثالی قرار دیا اور چیف منسٹر کے چندرشیکھر راؤ کی جانب سے اقلیتی اقامتی اسکولس کے قیام کو تاریخی اقدام قرار دیا اور کہاکہ تلنگانہ حکومت کی جانب سے جو اقلیتوں کی تر قی کے لئے اقدامات کئے جارہے ہیں اس کی ملک بھرمیں نظیر نہیں ملتی۔ تاہم انھوں نے ساتھ ہی ساتھ میوا کی درخواست پر بھی مثبت اقدامات کا مطالبہ کیا ہے۔