ضرورت سے زیادہ پمفلٹس کے باوجود داخلوں میں اضافہ سے قاصر، بھاری رقم کا فضول خرچ
حیدرآباد۔28مئی ( سیاست نیوز) اقلیتوں کے 71اقامتی اسکولس میں داخلوں کا عمل آج مکمل ہوگیا لیکن اسکولس کی تشہیر کیلئے شائع کردہ پبلسٹی مٹیریل بڑی مقدار میں کچرے دان کی نذر ہوجائے گا ۔ حج ہاؤز میں واقع اقلیتی اسکولس کے ہیلپ لائن سنٹر میں ہزاروں کی تعداد میں پوسٹرس اور پمفلٹس کے بنڈلس پڑے ہوئے ہیں جن کا کوئی پرسان حال نہیں ۔ گذشتہ 10دن یہ پبلسٹی مٹیریل اسی حالت میں پڑا ہے اور سوسائٹی کے عہدیداروں کو اس کی کوئی فکر نہیں ۔ اب جب کہ اسکولوں میں داخلہ کا عمل مکمل ہوگیا لہذا پبلسٹی مٹیریل کی کوئی اہمیت باقی نہیں رہی اور وہ ظاہر ہے کہ ردی کی نذر ہوجائے گا ۔ اطلاعات کے مطابق سوسائٹی کے ذمہ داروں نے ضرورت سے کہیں زیادہ پوسٹرس اور پمفلٹس شائع کرلئے جس کے سبب نہ صرف حیدرآباد بلکہ اضلاع میں بھی بڑی تعداد میں پبلسٹی مٹیریل کے ضائع ہونے کا اندیشہ ہے ۔ سوسائٹی سے وابستہ افراد نے نام شائع نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ پبلسٹی مٹیریل کی اشاعت میں بھی بھاری خرچ ہوا ہے اور مارکٹ میں مقررہ قیمت سے زیادہ قیمت ادا کرتے ہوئے پوسٹرس اور پمفلٹس تیار کئے گئے ۔ بتایا جاتا ہے کہ آن لائن رجسٹریشن کے آخری ایام میں کئی اضلاع کو پوسٹرس اور پمفلٹس روانہ کئے گئے جو تقسیم نہ ہوسکے ۔ جب حیدرآباد میں ہزاروں پوسٹرس اور پمفلٹس ناکارہ ہورہے ہیں تو ظاہر ہے کہ اضلاع میں بھی یہی صورتحال ہوگی ۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ضرورت سے کہیں زیادہ پبلسٹی مٹیریل کی اشاعت کا کس نے حکم دیا تھا ۔ اس کے علاوہ حکومت کے فیصلہ کے مطابق اضلاع کی مساجد میں کہیں بھی اسکولوں سے متعلق پوسٹرس آویزاں نہیں کئے گئے ۔ ڈائرکٹر جنرل اینٹی کرپشن و نائب صدر نشین تلنگانہ میناریٹیز ریسیڈنشیل ایجوکیشنل انسٹی ٹیوشنس سوسائٹی کو اس جانب فوری توجہ کی ضرورت ہے ۔ بتایا جاتا ہے کہ سوسائٹی میں ضرورت سے کہیں زیادہ ریٹائرڈ اور رضاکارانہ تنظیموں کے افراد کو شامل کرلیا گیا جن میں کوئی تال میل نہیں جس کا اثر سوسائٹی کی کارکردگی پر پڑرہا ہے ۔ سوسائٹی کے کاموں اور اس کے انجام دینے والوں پر کوئی نگرانی نہیں اور نہ ہی کوئی کام کا حساب طلب کررہا ہے ۔ الغرض سوسائٹی کے کام کاج پر کئی سوال اٹھ رہے ہیں ۔ شہر اور اضلاع میں کئے گئے تقررات کے بارے میں کئی شکایات موصول ہورہی ہیں ۔ سوسائٹی کے سکریٹری جو اقلیتی فینانس کارپوریشن کے منیجنگ ڈائرکٹر بھی ہیں وہ مکمل طور پر این جی اوز پر انحصار کئے ہوئے ہیں ۔ کیونکہ کوئی بھی سرکاری عہدیدار سوسائٹی سے وابستہ ہونے کیلئے تیار نہیں ۔