پاکستان میں 6 فبروری کو انعقاد۔ وزیر اعظم نواز شریف کا عنقریب قطر کا دورہ
اسلام آباد 28 جنوری ( سیاست ڈاٹ کام ) پاکستان کی جانب سے افغانستان حکومت اور طالبان کے مابین تعطل کا شکار بات چیت کا احیاء عمل میں لانے کے مقصد سے آئندہ ہفتے چار رخی بات چیت کا انعقاد عمل میں لایا جائیگا ۔ ایک اعلی عہدیدار نے یہ بات بتائی ۔ دفتر خارجہ کے ترجمان قاضی خلیل اللہ نے کہا کہ افغانستان ‘ چین ‘ پاکستان اور امریکہ پر مشتمل چار قومی گروپ کی بات چیت اسلام آباد میں 6 فبروری کو منعقد ہوگی ۔ خلیل اللہ نے کہا کہ اس اجلاس میں افغانستان میں مصالحت کیلئے نقشہ عمل پر غور کیا جائیگا ۔ یہ حالیہ ہفتوں میں چار قومی گروپ کا تیسرا اجلاس ہوگا ۔ اس چار قومی گروپ کو ماہ ڈسمبر میں تشکیل دیا گیا تھا تاکہ طالبان کے ساتھ بات چیت میں مدد کی جاسکے ۔ یہ بات چیت طالبان کے سابق سربراہ ملا عمر کی موت کی خبر کے بعد گذشتہ سال جولائی میں تعطل کا شکار ہوگئی تھی ۔ تیسرے اجلاس کی تواریخ اور مقام کا کابل میں ہوئے اجلاس کے اختتام پر اعلان کیا گیا تھا ۔ وزیر اعظم پاکستان نواز شریف بہت جلد قطر کا دورہ کرنے والے ہیں جو افغانستان میں مصالحت کی کوششوں کا حصہ ہے ۔ انہوں نے نواز شریف کے اس دورہ کے تعلق سے مزید تفصیلات بتانے سے گریز کیا ۔ واضح رہے کہ چند دن قبل ہی افغان طالبان نے اعلان کیا تھا کہ قطر میں ان کا سیاسی دفتر ہی وہ واحد با اختیار ادارہ ہے جو اس کی جانب سے کسی طرح کی بات چیت میں حصہ لے سکتا ہے ۔ سمجھا جاتا ہے کہ طالبان کے قطر دفتر کے ارکان ہی راست طور پر ملا اختر منصور سے راست رابطے رکھتے ہیں جو گذشتہ سال ملا عمر کی موت کے بعد طالبان کے باضابطہ سربراہ بن گئے تھے ۔ پاکستان ‘ چین اور روس کے عہدیدار اس وقت موجود تھے جب طالبان اور افغان حکومت کا پاکستان میں اسلام آباد کے قریب مری کے مقام پر اجلاس منعقد ہوا تھا ۔ دونوں فریقین کی یہ پہلے دور کی میٹنگ تھی ۔ سمجھا جاتا ہے کہ افغانستان میں امن قائم کرنے کی کوششیں سبھی فریقین کیلئے ایٹک امتحان سے کم نہیں ہونگی کیونکہ افغانستان میں خود طالبان کے ساتھ کسی طرح کی مصالحت کے خلاف شدید رائے ظاہر کی جا رہی ہے ۔ طالبان کو افغانستان میں 2001 میں اقتدار سے بیدخل کردیا گیا تھا اور وہ بھی بات چیت میں حصہ لینے یا نہ لینے کے تعلق سے منقسم رائے رکھتے ہیں۔ افغانستان میں ایک سال قبل امریکہ اور ناٹو کی جانب سے اپنے لڑاکا مشن کو ختم کئے جانے کے بعد سے افغانستان میں حملوں میں شدت پیدا کردی گئی ہے ۔