افغانستان میں ’کنوارہ پن‘‘ ثابت کرنے خواتین کے معائنے

کراچی۔2 مارچ (سیاست ڈاٹ کام) انسانی حقوق کے کارکنوں نے کہا کہ غیراخلاقی سرگرمیوں میں ملوث ہونے کے شبہ میں افغان خواتین و لڑکیوں کو سرکاری ڈاکٹروں کی جانب سے ایسے ٹیسٹ کرانے پر مجبور کیا جارہا ہے جن سے خواتین کا کنوارہ پن کا پتہ چل سکے حالانکہ اس ٹیسٹ کی کوئی سائنسی حیثیت نہیں۔ افغانستان میں طالبان حکومت کو معزول کیے جانے کے 15 سال بعد بھی عورتوں کی زندگیوں میں بہتری ایک بڑا چیلنج ہے۔ امریکی نشریاتی ادارہ نے افغانستان کے انسانی حقوق کمیشن کے حوالے سے ایک رپورٹ میں کہا ہے کہ ایک تحقیقی مطالعہ کے دوران ملک کے مختلف صوبوں میں 53 عورتوں اور لڑکیوں کے انٹرویو کیے گئے جن میں سے 48 نے کہا کہ گھر سے بھاگنے یا غیرازدواجی تعلقات کا الزام لگنے کے باعث حکام نے انہیں ’’کنوارہ پن‘‘ ثابت کرنے کیلئے ’معائنہ ‘کروانے پر مجبور کیا۔ یہ مطالعہ گزشتہ سال کیا گیا تھا تاہم اس کے نتائج ہیومن رائٹس واچ نے اب شائع کئے ہیں۔کمیشن کے اخذ کئے گئے نتیجہ کے مطابق ’متاثرہ عورتوں کی رضامندی کے بغیر ان کا جسمانی معائنہ کیا گیا جسے جنسی طور ہراساں کرنے اور انسانی حقوق کی خلاف ورزی سمجھا جا سکتا ہے۔‘ کمیشن نے یہ بھی کہا کہ یہ ٹیسٹ افغانستان کے آئین کی روح اور بین الاقوامی اُصولوں کیخلاف ہیں۔