امریکہ اور طالبان کے درمیان سفارتی تعلقات میں تیزی
اکثر ممالک نے ہماری سیاسی طاقت کا اعتراف کیا : جماعت اسلامی
ماسکو۔ 3 نومبر ۔(سیاست ڈاٹ کام) روس کی جانب سے سابق صدر حامد کرزئی سمیت افغان حکومت سے قریبی تعلقات رکھنے والے 8 میں سے 6 رہنماؤں کو دعوت دینے کی تصدیق ہوگئی ہے ۔ روس نے صدر اشرف غنی کی حکومت کے علم میں لائے بغیر افغانستان کے سینئر سیاست دانوں کو طالبان سے مذاکرات کیلئے ماسکو بلا لیا جبکہ افغان حکومت نے کہا ہے کہ اس سے امریکی سربراہی میں جاری امن عمل کو نقصان پہنچ سکتا ہے ۔ خیال رہے کہ روس نے رواں سال اگست میں ماسکو میں امن مذاکرات کی تجویز دیتے ہوئے ایک سربراہی اجلاس میں طالبان سمیت 12 ممالک کو شرکت کی دعوت دی تھی لیکن افغان صدر اشرف غنی کی جانب سے دعوت ٹھکرانے پر اس اجلاس کو ملتوی کردیا گیا تھا۔ افغان صدر اشرف غنی کا موقف تھا کہ طالبان کے ساتھ مذاکرات کابل حکومت کی سربراہی میں ہونے چاہئیں جس کے بعد امریکہ نے بھی اس اجلاس میں شرکت سے انکار کردیا تھا۔ افغانستان کے تین سینئر عہدیداروں کا کہنا تھا کہ ماسکو کی جانب سے مذاکرات کے لیے بڑھتے ہوئے دباؤ سے حکومت خوش نہیں ہے ۔روس میں ہونے والے مذاکرات میں شامل ہونے والے ایک سینئر افغان عہدیدارکا کہنا تھا کہ’’ہم نے روس سے اجلاس منسوخ کرنے کی درخواست کی تھی کیونکہ مختلف فورمز پر افغان طالبان سے مذاکرات سے امریکہ کی سربراہی میں جاری امن عمل مزید پیچیدہ ہوگا لیکن انہوں نے ہماری درخواست مسترد کردی‘‘۔روسی وزارت خارجہ کے ترجمان ماریا زیخاروا کا کہنا تھا کہ مجھے امید ہے کہ آنے والے دنوں میں کانفرنس کی تفصیلات سے آگاہ کر سکوںگا۔ماریا زیخاروا نے ایک بریفنگ کے دوران صحافیوں کو بتایا کہ اجلاس کے شرکا کے ناموں کو حتمی شکل دی جارہی ہے لیکن روس باقاعدہ اعلان سے قبل تمام چیزوں کو یقینی بنانا چاہتا ہے۔ دوسری جانب سے امریکہ اور طالبان کے درمیان سفارتی تعلقات میں گزشتہ ماہ تیزی دیکھی گئی تھی اور افغانستان کے لیے امریکی خصوصی نمائندے زلمے خلیل زاد کی قطر میں طالبان سے ملاقات ہوئی تھی لیکن کئی افغان سیاست دانوں کا کہنا تھا کہ انہوں نے اس عمل سے کنارہ کشی کرلی ہے ۔حامد کرزئی افغانستان میں 2001 ء میں طالبان کی حکومت کے خاتمے کے بعد 13 برس تک حکمراں رہے تھے لیکن وہ امریکی پالیسی سخت ناقد بن گئے ہیں اور روس جانے والے اس رہنماؤں میں شامل ہیں۔افغانستان کے سابق صدر حامد کرزئی کے ترجمان محمد یوسف ساہا کا کہنا تھا کہ ’’کرزئی ماسکو جائیں گے کیونکہ طالبان کے ساتھ امن مذاکرات کے کسی بھی موقع کو نظرانداز نہیں کرنا چاہیے ‘‘۔بلخ کے سابق گورنر اور جماعت اسلامی کے ایک رہنما عطا محمد نور نے کہا ہے وہ بھی اجلا س میں شرکت کے لیے روس جائیں گے ۔ان کا کہنا تھا کہ انہیں افغان صدر اشرف غنی کی جانب سے امریکہ اور طالبان کے ساتھ مذاکرات پر کوئی اعتراض نہیں ہے لیکن وہ یہ فیصلہ نہیں کرسکتے کہ طالبان کے ساتھ ہمارے مذاکرات ہونے چاہیے یا نہیں۔عطا محمد نور کا کہنا تھا کہ افغانی سمجھ گئے ہیں کہ کوئی ایک بیرونی طاقت کے فارمولہ پر عمل کرکے افغانستان میں امن قائم نہیں کیا جاسکتا۔افغان طالبان کے ایک رکن کا کہنا تھا کہ وہ ہمسایہ ممالک چین، ایران، پاکستان، تاجکستان، ازبکستان اور ترکمانستان سے مذاکرات کے لیے اپنا وفد ماسکو بھیجیں گے ۔ان کا کہنا تھا کہ اکثر ممالک نے ہماری حیثیت کا اعتراف کیا ہے اور ہمیں ایک الگ سیاسی طاقت کے طور پر دعوت دی ہے جو درحقیقت ہماری فتح ہے۔