افغانستان میں غیر ملکی فوجیوں کی تعداد میں کمی

کابل۔ 3 ۔ ستمبر (سیاست ڈاٹ کام) افغانستان میں تعینات نیٹو کی اتحادی فورسز سکڑتی جا رہی ہیں۔ امریکہ کے ساتھ ساتھ وہاں موجود سلووینیا، منگولیا، ملائیشیا اور سنگاپور جیسے ممالک کے فوجی بھی اب گھر جانے کی تیاری کر رہے ہیں۔ میڈیا کے مطا بق یہ اتحاد ایک دہائی سے زائد عرصے سے شدت پسندوں کے خلاف لڑ رہا ہے، یہ لڑاکا دستے تقریبا چار ماہ میں افغانستان چھوڑ دیں گے۔ اس کے بعد مقامی فورسز کی تربیت کیلئے کِن ملکوں کے اور کتنے فوجی وہاں قیام کریں گے، رواں ہفتے ویلز میں ہونے والے نیٹو کے سربراہی اجلاس میں اس نکتے پر بھی غور کیا جائے گا۔ اس کے ساتھ ہی یہ بات بھی زیر بحث رہے گی کہ افغان پولیس اہلکاروں اور فوجیوں کو تنخواہیں کون ادا کرے گا۔

ریٹائرڈ ایڈمرل جیمزا سٹاوریدیس کا کہنا ہے: ”پہلے ہی بہت خون بہہ چکا ہے، بہت پیسہ خرچ ہو چکا ہے اور کوئی بھی یہ نہیں چاہے گا کہ اتنا کچھ کئے جانے کے بعد وہاں وہ دیکھنا پڑے، جو اس وقت عراق میں ہو رہا ہے، 2008ء سے 2013ء تک نیٹو کے سپریم الائیڈ کمانڈر کے منصب پر فائز رہنے والے اسٹاوریدیس کا مزید کہنا ہے: ”میرے خیال میں لوگ یہ بات تسلیم کرتے ہیں کہ ہمیں سکیورٹی فورسز کو مزید کئی سالوں تک مشاورت اور رہنمائی فراہم کرنے کی ضرورت ہے۔” امر یکی خبر رساں ادارے کے مطابق تقریبا 30,700 امریکی فوجی ابھی تک افغانستان میں موجود ہیں۔ امریکی صدر براک اوباما کہہ چکے ہیں کہ وہ رواں برس کے بعد بھی اپنے 9800فوجی وہاں رکھنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ اس وقت افغانستان میں امریکہ کے علاوہ دیگر ملکوں کے فوجیوں کی تعداد 14400ہے۔ مئی 2011ء کے مقابلے میں یہ تعداد 65فیصد کم ہوئی ہے اور اس میں تیزی سے مزید کمی کا سلسلہ جاری ہے۔

برطانیہ، جرمنی اور اٹلی جیسے بعض ملکوں کے ابھی بھی کافی فوجی افغانستان میں موجود ہیں۔ یعنی برطانیہ کے 3936 ،جرمنی کے 2250اور اٹلی کے 1653۔ تاہم 17ممالک ایسے ہیں، افغانستان میں تعینات جن کے فوجیوں کی زیادہ سے زیادہ تعداد پچیس ہے۔ ان میں آسٹریا، بحرین، بوسنیا ہرزگوینا، ایل سلواڈور، ایسٹونیا، یونان، آئس لینڈ، آئرلینڈ، لٹویا، لکسمبرگ، ملائیشیا، مونٹی نیگرو، نیوزی لینڈ، سلووینیا، سویڈن، ٹونگا اور یوکرائن شامل ہیں۔ افغانستان میں امریکہ کی سربراہی میں جنگ کے آغاز پر تقریبا پچاس ملکوں نے اپنے فوجی فراہم کیے تھے۔ ریٹائرڈ ایڈمرل جیمز اسٹاوریدیس نے خیال ظاہر کیا ہے کہ آئندہ برس افغانستان میں پندرہ سے بیس ملکوں کے فوجی ہی قیام کریں گے۔