افغانستان میں خون ریزی

افغانستان میں امن و امان کی برقراری کے لیے اب تک کی جانے والی کوششوں کو شدید دھکہ پہونچانے والے خودکش دھماکوں نے ایک خونی ماحول کی شدت برقرار رہنے کا ثبوت دیا ہے ۔ گذشتہ پیر کو کابل میں ہوئے یکے بعد دیگر خود کش دھماکوں میں 9 صحافیوں سمیت 29 افراد ہلاک ہوئے ۔ اگرچیکہ افغانستان کی 1990 ء کی خانہ جنگی سے لے کر طالبان حکمرانی کی بیدخلی اور اب اشرف غنی کی قیادت میں افغانستان کی روزمرہ کی زندگی میں اموات کا سلسلہ رکا تو نہیں ہے

مگر اس مرتبہ دھماکہ کرنے والوں نے صحافیوں کو بھی نشانہ بنایا ہے ۔ خود کو صحافی بتاکر سیکوریٹی علاقہ سے گذرنے والے خود کش بم بردار نے صحافیوں کے درمیان پہونچ کر خود کو دھماکے سے اڑالیا ۔ 2001 میں امریکی زیر قیادت حملہ کے بعد سے یہاں خون بہانے کا عمل تشویشناک حد تک پہونچ گیا ہے ۔ اب ایسا معلوم ہوتا ہے کہ یہاں امن کی امیدیں فوت ہوجائے گی ۔ جن صحافیوں کو خود کش دھماکہ کا شکار بنایا گیا ، انہوں نے اس ملک میں 25 سال سے خون ریزی کی کئی وارداتیں دیکھی تھیں ۔ افغان جنگ نے 2002 سے ایک نئی سمت اختیار کرلی ہے ۔ اب دولت اسلامیہ حملوں کی ذمہ داری قبول کررہی ہے ۔ دہشت گردی میں ملوث تنظیموں کا ایک ایسا جال ہے جو صرف مخصوص ملک میں پھیلتا جارہا ہے ۔ بدامنی کی صورتحال کو برقرار رکھ کر یہ تنظیمیں اپنے مقاصد میں کامیاب ہوتے جارہی ہیں ۔ ان حملوں سے کوئی بھی شہری نہیں بچا ہے ۔ امدادی ورکرس ہوں ، پولیس آفیسرس ، دوکاندار ہوں یا ڈاکٹر اور صحافی تمام ہی ان کا شکار ہوتے ہیں ۔ جنگیں اکثر میدان جنگ میں لڑی جاتی ہیں لیکن افغانستان کی سرزمین کو ہی جگہ جگہ میدان جنگ میں تبدیل کردیا گیا ہے ۔ افسوس اس بات کا ہے کہ عالمی طاقتوں خاص کر امریکی اتحادی افواج نے اس ملک کی سیکوریٹی کی دھجیاں اڑا دی ہیں ۔ ہر گذرتے سال میں دھماکوں کی تعداد میں بھی اضافہ ہونا افسوسناک ہے ۔

افغانستان میں صرف ایک ہفتہ قبل ہی فہرست رائے دہندگان میں اپنے نام درج کروانے کے لیے قطار میں ٹھہرے شہریوں پر حملہ کیا گیا تھا جس میں 57 افراد ہلاک ہوئے تھے ۔ افغانستان کی حکومت نے ملک میں امن کے قیام کے لیے ہر ممکنہ کوشش کی تھی لیکن اب اس ملک میں دولت اسلامیہ کے چھوٹے چھوٹے عناصر سر ابھار رہے ہیں ۔ ان گروپوں کے خلاف فوجی کارروائیوں کے باوجود حملے ہورہے ہیں تو ایسا معلوم ہوتا کہ عالمی طاقتیں افغانستان کی صورتحال کو بند آنکھ سے نمٹنے کی کوشش کررہی ہیں ۔ 2001 میں طالبان کے زوال کے بعد ایک نئی امید جاگی تھی کہ اب افغانستان میں خون ریزی کا دور ختم ہوجائے گا ۔ یہاں تعمیر نو کو اہمیت دی جائے گی لیکن ان بدنصیب افغانیوں کو یہ احساس دلایا جارہا ہے کہ ان کے لیے تشدد کا خاتمہ ایک خواب ہی ہوگا ۔ جو افغان باشندے اب تک ہر دھماکہ کے بعد زخمیوں کو اٹھا کر ان کی مدد کرتے رہے ایک دن وہ خود بھی دھماکہ کا شکار ہورہے ہیں ۔ افغانستان میں امریکہ کی موجودگی کے تقریبا دو دہوں بعد بھی بم حملے عالمی طاقتوں کے لیے سنگین چیلنج ہیں ۔ سیکوریٹی کی صورتحال ابتر بنادی جارہی ہے ۔ گذشتہ سال کے مقابل اس سال افغان سیکوریٹی فورس کی تعداد میں کمی لائی گئی ہے ۔ امریکہ نے افغانستان کی سیکوریٹی کی ذمہ داری افغان سیکوریٹی فورس کے حوالے کرنے کا ایک ایسے وقت فیصلہ کیا جب کہ افغانستان کو سنگین سیکوریٹی صورتحال سے نمٹنے میں مشکلات کا سامنا تھا ۔ پیر کو کئے جانے والے دو خود کش حملوں کے بعد ایک نازک صورتحال واضح ہوئی ہے کہ افغانستان میں طالبان اور دولت اسلامیہ تیزی سے ابھرنے کی کوشش کررہے ہیں ۔ افغانستان میں امریکہ کی 16 سال کی جنگ کے لیے صدر ڈونالڈ ٹرمپ کی نئی پالیسی نے بھی اس جنگ زدہ ملک کو تشدد کے حوالے کردینے کا کام کیا ہے ۔۔