l صدر ٹرمپ اب مشکل سوالات پوچھ رہے ہیں
l موصوف افغانستان کا سردرد پالنا نہیں چاہتے
l امریکی وزیرخارجہ ریکس ٹلرسن کی صحافیوں سے بات چیت
منیلا ۔ 7 اگست (سیاست ڈاٹ کام) امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ اب اپنے مشیروں سے مشکل اور پیچیدہ سوالات کررہے ہیں اور یہ جاننا چاہتے ہیں کہ افغانستان میں امریکہ کی آئندہ حکمت عملی کیا ہونا چاہئے کیونکہ ٹرمپ اب افغانستان کا سردرد پالنا نہیں چاہتے۔ امریکی وزیرخارجہ ریکس ٹلرسن نے یہ بات کہی۔ انہوں نے کہا کہ وائیٹ ہاؤس نے اب 16 سال بعد افغانستان میں امریکی پالیسی پر نظرثانی کا فیصلہ کیا ہے جبکہ تازہ ترین رپورٹس سے یہ پتہ چلتا ہیکہ ٹرمپ کی قومی سلامتی ٹیم بھی اب اس موضوع پر منقسم رائے رکھتی ہے۔ ایک گروپ چاہتا ہیکہ امریکہ افغانستان سے نکل جائے جبکہ دوسرا گروپ چاہتا ہیکہ امریکہ افغانستان میں مزید فوج روانہ کرے۔ ایک علاقائی سیکوریٹی فورم میں شرکت کے موقع پر ریکس ٹلرسن نے یہ باتیں بتائیں تاہم انہوں نے خود صدر ٹرمپ کو کیا مشورہ دیا ہے اس کے بارے میں کچھ بھی نہیں بتایا صرف اتنا کہنے پر ہی اکتفا کیا کہ ٹرمپ اب افغانستان میں لڑائی جاری رکھنا نہیں چاہتے۔ بہ الفاظ دیگر موصوف افغانستان کا سردرد پالنا نہیں چاہتے۔ ٹلرسن نے اخباری نمائندوں سے بات کرتے ہوئے کہا کہ صدر موصوف تو اب افغانستان کا نام سنتے ہی ہتھے سے اکھڑ جارہے ہیں اور اس لئے انہوں نے پیچیدہ سوالات پوچھنا شروع کردیئے ہیں۔ اس معاملہ پر صدر موصوف کی قومی سلامتی کونسل نے ایک دو بار نہیں بلکہ تین بار اجلاس کا انعقاد کیا ہے۔ علاوہ ازیں نائب صدر مائیک پنس بھی اب افغانستان پر امریکہ کی پالیسی پر نظرثانی کیلئے ٹرمپ کے شانہ بشانہ موجود ہیں اور غیرمعمولی دلچسپی لے رہے ہیں لہٰذا اب وہ ایسے ایسے سوالات پوچھ رہے ہیں (جو یقیناً اچھے ہیں) جن کا جواب دینا مشکل ثابت ہورہا ہے کیونکہ ماضی میں کبھی ایسے سوالات نہیں پوچھے گئے تھے لہٰذا ہمارا بھی فرض ہیکہ ہم صدر موصوف کو اطمینان بخش جواب دیں تاکہ ہمارے پیش کئے گئے تجزیہ کی روشنی میں صدر موصوف کو افغانستان کی صحیح اور سچی تصویر نظر آجائے۔ ٹرمپ کے جنرلس (اعلیٰ سطحی فوجی عہدیدار) نے واضح کردیا ہیکہ افغانستان میں جنگ لڑنا تضیع اوقات ہے کیونکہ ناٹو اور امریکی افواج کی قابل لحاظ تعداد کے باوجود بھی افغانستان کی سیکوریٹی فورسیس طالبان کے خلاف جدوجہد کرتی نظر آرہی ہے۔ قبل ازیں ٹرمپ نے افغانستان کی صورتحال سے نمٹنے کیلئے پنٹاگان کے سابق سربراہ جنرل جم میاٹس کو وسیع تر اختیارات تفویض کئے تھے اور افغانستان میں امریکی فوجیوں کی تعداد کا فیصلہ بھی ان پر چھوڑ دیا تھا جبکہ آج کئی ماہ بعد بھی افغانستان میں امریکی افواج کی تعداد 8400 اور ناٹو افواج کی تعداد 5000 میں کوئی اضافہ نہیں ہوا ہے۔ دوسری طرف میاٹس نے یہ موقف اس لئے اختیار کیا تھا کہ انہیں افغانستان معاملہ پر وائیٹ ہاؤس کی کسی واضح اور شفاف پالیسی کا انتظار تھا۔ بات صرف افغانستان کی ہی نہیں بلکہ اس خطہ کے وسیع تر علاقہ کی بھی تھی جیسے پاکستان ۔ کہ کس طرح وہ (پاکستان) دہشت گردوں سے نمٹنے کی پالیسی وضع کرتا ہے تاکہ اسی مطابقت سے صورتحال میں کچھ یہاں اور کچھ وہاں تبدیلیاں کی جاسکیں لیکن دوسری طرف اگر دیگر رپورٹس کا جائزہ لیا جائے تو یہ بات سامنے آتی ہیکہ ٹرمپ کے دیگر مشیران جن میں ان کے بیحد بااعتماد حکمت عملی سربراہ اسٹیوبینن کا یہ کہنا ہیکہ افغانستان سے امریکی افواج کو دوبارہ طلب کرتے ہوئے اخراجات میں قابل لحاظ کٹوتی کی جائے یا پھر امریکی فوج کی جگہ لینے خانگی ملٹری کنٹراکٹرس کو روانہ کیا جائے۔ لہٰذا اس صورتحال میں کیا اقدامات کئے جاسکتے ہیں یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا۔ صرف یہ کہتے رہنا کہ ہمیں افغانستان میں لڑتے ہی رہنا ہے اور کوئی متبادل نہیں، غلط بات ہے جبکہ زندگی کے ہر شعبہ میں متبادل موجود ہے۔