شاہکار یوروپی طرز تعمیر تاریخی ورثہ ، رود موسیٰ طغیانی سے قبل تعمیر دواخانہ کی غیر معمولی اہمیت
حیدرآباد 24 جولائی (سیاست نیوز) عثمانیہ دواخانہ سے متصل افضل پارک کی عظمت رفتہ کی بحالی کے لئے مجلس بلدیہ عظیم تر حیدرآباد کی جانب سے ایک کروڑ 26 لاکھ روپئے خرچ کئے جارہے ہیں تاکہ اس پارک کی تاریخی اہمیت کو برقرار رکھتے ہوئے رودِ موسیٰ کے کنارے موجود اس ثقافتی ورثہ کی برقراری کو یقینی بنایا جاسکے لیکن حکومت کی جانب سے دواخانہ عثمانیہ کی قدیم یوروپی طرز تعمیر کی حامل عمارت کو منہدم کرنے کے منصوبہ سے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ حکومت کو حیدرآباد کے تاریخی ورثہ کے علاوہ ثقافتی ورثہ سے کوئی دلچسپی نہیں ہے بلکہ حکومت صرف اپنی من مانی کے ذریعہ شہر کی شناخت مٹانے کے درپے ہے۔ شہر حیدرآباد میں دواخانہ عثمانیہ کو جو اہمیت حاصل ہے
اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ دواخانہ عثمانیہ 1908 ء کی طغیانی سے پہلے بھی موجود تھا اور اس کا نام افضل گنج دواخانہ تھا جوکہ 1876 ء میں رودِ موسیٰ کے کنارے تعمیر کیا گیا تھا۔ اس دواخانہ کو عالمی سطح پر اُس وقت شناخت حاصل ہوئی جب ڈاکٹر ایڈورڈ لاری نے حیدرآباد کلورو فارم کمیشن دواخانہ کے سپرنٹنڈنٹ اور حیدرآباد میڈیکل اسکول کے پرنسپل بنائے گئے۔ 1885 ء تا 1901 ء ڈاکٹر ایڈورڈ لاری افضل گنج دواخانہ اور حیدرآباد میڈیکل اسکول کے سربراہ رہے اور اس دوران اس دواخانہ نے خوب شہرت حاصل کی تھی۔ 1908 ء میں آئی قیامت خیز طغیانی نے نہ صرف موسیٰ ندی کے اطراف و اکناف کے علاقوں کو تباہ کردیا بلکہ افضل گنج دواخانہ کو بھی یہ طغیانی بہا لے گئی۔ دواخانہ کی قدیم عمارت سے متصل افضل پارک میں آج بھی وہ درخت موجود ہے جس نے سینکڑوں افراد کی جان بچائی تھی۔ اس درخت کے تحفظ کے علاوہ افضل پارک کے تحفظ کے لئے اقدامات کئے جارہے ہیں اور افضل پارک کی قدیم تصاویر کا مشاہدہ کرتے ہوئے اُس کی عظمت رفتہ بحال کرنے کی کوششیں کی جارہی ہیں لیکن دواخانہ عثمانیہ کی خوبصورت عمارت جوکہ یوروپی طرز تعمیر کا عظیم شاہکار ہے، اسے منہدم کرنے کی منصوبہ بندی سے ایسا محسوس ہورہا ہے کہ حکومت کو اس وسیع و عریض اراضی پر بلند قامت عمارتوں کی تعمیر میں دلچسپی ہے جبکہ علاقہ کی خوبصورتی کی برقراری حکومت کی ترجیحات میں شامل نہیں ہیں۔ مختلف تنظیموں اور اداروں کے علاوہ بزرگ شہریوں کی جانب سے حکومت کے اس اقدام کی شدید مذمت کی جارہی ہے اور کہا جارہا ہے کہ حکومت اگر ایسے تعمیری شاہکار دے نہیں سکتی تو کم از کم ان کی حفاظت اور عظمت رفتہ کی بحالی کے اقدامات کرے نہ کہ اُنھیں منہدم کرتے ہوئے ثقافتی ورثہ کی تباہی کا سبب بنے۔ عوام یہ سوال کررہے ہیں کہ جب افضل پارک کی عظمت رفتہ بحال ہوسکتی ہے اور اُس کی سابقہ صورتحال کو واپس لایا جاسکتا ہے تو پھر دواخانہ عثمانیہ کی عمارت کی عظمت رفتہ کی بحالی ممکن کیوں نہیں بنائی جاسکتی؟