حضرت مصعب بن سعد (تابعی) رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں کہ (میرے والد) حضرت سعد رضی اللہ تعالی عنہ نے اپنے بارے میں یہ گمان کیا کہ وہ اس شخص سے افضل ہیں، جو ان سے کمتر ہیں (یعنی ضعیف و ناتواں شخص یا فقیر و مفلس) چنانچہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے (ان کا یہ گمان ختم کرنے اور دوسروں کو آگاہ کرنے کے لئے) فرمایا ’’تمھیں (دشمنان دین کے مقابلہ پر) مدد و سہارا اور رزق کن لوگوں کی برکت سے ملتا ہے؟ ان ہی کی برکت سے جو ضعیف و ناتواں اور غریب و نادار ہیں‘‘۔ (بخاری)
حضرت سعد رضی اللہ تعالی عنہ بہت سے اوصاف اور خوبیوں کے مالک تھے، مثلاً شجاعت، جود و کرم اور سخاوت و فیاضی جیسے اعلی اوصاف ان میں بدرجہ اتم تھے۔ چنانچہ ان کے ذہن میں یہ بات پیدا ہوئی کہ جو لوگ مجھ جیسی خصوصیات اور خوبیاں نہیں رکھتے، ان کی بہ نسبت میں مسلمانوں کی زیادہ امداد و اعانت کرتا ہوں اور اس اعتبار سے اسلام کے لئے میرا وجود زیادہ فائدہ مند ہے!۔ ذہن کی یہ بات زبان پر بھی آگئی ہوگی، لہذا حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے اس گمان سے ان کو باز رکھا اور واضح فرمایا کہ ’’تمہارا اس انداز سے سوچنا غیر مناسب بات ہے، تمھیں چاہئے کہ جو لوگ طاقت و قوت اور مال و دولت کے اعتبار سے تم سے کمتر ہیں ان کی عزت کرو، انھیں کمتر و حقیر نہ سمجھو اور ان کے تئیں تکبر و نخوت کا رویہ اختیار نہ کرو، کیونکہ وہ لوگ بڑے شکستہ دل اور مسکین ہوتے ہیں، ان میں خلوص و سچائی کا جوہر ہوتا ہے، ان پر اللہ تعالی کی خاص مہربانی ہوتی ہے اور تم ان ہی کی دعاؤں کی برکتوں سے فائدہ اٹھاتے ہو۔ خدا ان ہی کے طفیل تمھیں دشمنوں پر غالب کرتا ہے اور تمہارے رزق میں برکت عطا فرماتا ہے‘‘۔