ظفر آغا
اللہ رے دارالعلوم دیوبند اور جمعیتہ علماء ہند کی عظمت! جب سن 1857ء میں مغلیہ سلطنت کے بعد ہندوستان پر انگریزوں کا پرچم لہرانے لگا اور انگلستان سے بڑی تعداد میں مسیحی مشنری آنے لگ گئے تو کچھ عرصہ کے لئے یہ خطرہ لاحق ہوگیا کہ ہندوستان میں اسلام ہی خطرے میں پڑ جائے گا۔ ایسی ناامیدی کے ماحو ل میں دارالعلوم دیوبند سے امید کی کرن پھوٹی، جس نے ہندوستان کیا ساری دنیا میں اسلام کی وہ خدمت کی جس کی مثال ذرا مشکل سے ملتی ہے۔ اسی دارالعلوم دیوبند کے علماء اکرام نے جب جنگ آزادی کے دوران پھر اسلام کی ’ٹوپی‘ پر آنچ محسوس کی تو مسلمانوں کو جنگ آزادی میں ہندوؤں کے ساتھ متحد رکھنے کے لئے جمعیتہ علماء ہند کی داغ بیل ڈال دی۔ اس دور میں کہ جب محمد علی جناح مسلم لیگ کے پرچم تلے ہندواور مسلمان کے دو قومی نظریہ کے تحت پاکستان کا پرچم بلند کئے ہوئے تھے تو اس وقت میں مسلمانوں کو متحد ہندوستان میں ہندوؤں کے ساتھ مل کر سیکولر سیاست کی تلقین دینے والی تنظیم کا نام تھا جمعیتہ علماء ہند۔ اسی جمعیتہ کے ہیڈ کوارٹر دہلی میں مہاتما تاندھی اور مولانا آزاد جیسی شخصیات
ایک دوسرے کے کاندھے سے کاندھا ملاکر ہندوستان کی آزادی کی جنگ لڑرہے تھے۔ اسی جمعیتہ اور دارالعلوم کے ایک چشم و چراغ کا نام تھا مولانا حسین احمد مدنی جنہوں نے اسلام کی ٹوپی سلامت رکھنے کیلئے اپنی جان نچھاور کردی تھی۔ انہیں عظیم المرتبت شخصیت یعنی مولانا حسین احمد مدنی صاحب کے پوتے اور جمعیتہ علماء ہند کے ایک گروپ کے روح رواں جناب مولانا محمود مدنی صاحب کو ان دنوں گجرات میں مسلم نسل کشی کے الزام میں گھرے اور حالیہ پارلیمانی چناؤ میں بی جے پی کی جانب سے وزارت عظمیٰ کے دعویدار نریندر مودی میں کوئی عیب نہیں نظر آرہا ہے۔ کوئی اور مودی کے تعلق سے وہ بیان دیتا جو محمود مدنی صاحب نے دیا تو دل نہ دکھتا، مولانا حسین احمد مدنی کے پوتے اور دارالعلوم دیوبند و جمعیتہ علماء ہند کے ایک ستون کو اس بات میں کوئی عیب نہ نظر آئے کہ مودی نے مسلمانوں کی ٹوپی پہننے سے انکار کردیا تو صرف دل ہی نہیں دکھا بلکہ گردن بھی شرم سے جھک گئی۔ راقم الحروف یہ نہیں تصور کرسکتا ہے کہ مولانا محمود مدنی کو یہ بات سمجھ میں نہ آتی ہو کہ اس ملک میں عموماً تمام سیاستداں اور بالخصوص وزیر اعظم یا اس عہدہ کے دعویدار خصوصاً چناؤ کے دوران ٹوپی یا دوسرے مذاہب اور اقوام کے لباس کیوں پہنتے ہیں۔ یہ ہندوستانی سیاست کی رسم جس کی شروعات جواہر لال نہرو نے آزادی کے بعد کی تھی اور تو جانے دیجئے خود نریندر مودی ابھی ناگالینڈ گئے تو وہاں کے قبائیلیوں کا لباس پہن کر انہوں نے انتخابی ریالی میں شرکت کی۔ سکھوں کے مجمع میں انہوں نے سکھ گرو کی نشانی تلوار اور پگڑی پہن کر سکھوں کا دل جیتنے کی کوشش کی ۔اور تو اور مودی چند روز قبل تمل فلموں کے مشہور اداکار رجنی کانت کے گھر گئے تو وہاں انہوں نے تملوں کا لباس دھوتی اور سلک کی شال پہنی ہوئی تھی۔
مودی ہی نہیں جواہر لال نہرو سے لیکر منموہن سنگھ تک ہر وزیر اعظم یا اس عہدہ کا دعویدار یہی کرتا رہا ہے۔ یہ ایک علامتی فعل ہے جس کے سیاسی معنی یہ ہیں کہ وزیر اعظم کے لئے ہر کلچر ، ہر مذہب کے ماننے والے ، ہر زبان اور ہر علاقے کے لوگ برابرہیں، وہ کسی کو الگ نگاہ سے نہیں دیکھتا ہے۔جب اٹل بہاری واجپائی وزیراعظم تھے تو انہوں نے اپنے گھر پر بطور وزیر اعظم افطار کروایا اور ٹوپی پہنی۔ صرف مودی جی ایسے انوکھے انسان ہیں کہ ان کو ہندوستان کا ہر لباس منظور ہے سوائے ایک مسلمان کی ’ ٹوپی ‘ کے ۔ بھلا مودی جی کو مسلم ٹوپی کیسے منظور ہوسکتی ہے ،کیونکہ یہ وہی مودی جی ہیں جنہوں نے ابھی کچھ عرصہ قبل ایک انٹرویو میں گجرات فسادات میں مسلمانوں کے قتل عام پر یہ کہا تھا کہ مجھے گجرات میں مسلمانوں کے مارے جانے کا اتنا ہی افسوس ہے جتنا ایک ’ کتے کے پلے کا کار کے نیچے دب جانے سے‘ افسوس ہوتا ہے۔افسوس، مولانا محمو مدنی گجرات کی مسلم نسل کشی بھول گئے اور یہ بھی بھول گئے کہ یہ مودی ہی تھے جن کے لئے مسلمانوں کی حیثیت نعوذ باللہ ’ کتے کے پلے‘ سے زیادہ نہیں ہے۔
محمود مدنی کوئی بچہ نہیں ہیں کہ ان کو یہ باتیں سمجھ میں نہ آتی ہوں، وہ راجیہ سبھا کے رکن رہے ہیں اور سیاست کے داؤ پیچ سے بھی خوب واقف ہیں پھر جمعیتہ علماء ہند پر اپنا قبضہ برقرار رکھنے کے لئے خود اپنے چچا مولانا ارشد مدنی سے ایک بڑی سیاسی جنگ لڑ کر جمعیتہ کودو گروپس میں بانٹ چکے ہیں۔لب لباب یہ کہ مدنی صاحب کو یہ سمجھ میں آتا ہی ہوگا کہ چناؤ کے اس ہنگامے میں مودی اور ٹوپی کے تعلق سے انہوں نے جو بیان دیا ہے وہ کچھ حلقوں میں مودی حمایت کے طور پر بھی لیا جاسکتا ہے۔ اس لئے محمود مدنی کا یہ بیان خطرناک بیان ہے جس سے جمعیتہ علماء ہند کی قدروں کو سخت دھکا لگا ہے۔ اس بات سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا ہے کہ محمود مدنی صاحب کے بیان سے نہ صرف مسلمانوں کو غم و غصہ ہوا ہے بلکہ تمام سیکولر قوتوں کو حیرت ہوئی ہے۔ خود محمود مدنی صاحب کا اس بیان کے پیچھے کیا مقصد تھا ، یہ تو وقت ہی بتائے گا لیکن یہ ضرور کہا جاسکتا ہے کہ اس قسم کے بیان سے محمود مدنی صاحب نے جمعیتہ اور دارالعلوم دیوبند کی روایت کو کمزور کیا ہے۔
افسوس کہ اس تاریخ ساز پارلیمانی چناؤ میں جب ہندوستانی مسلمان پر وہ وقت آن پڑا ہے کہ جو اس پر 1957ء کے وقت آن پڑا تھا۔ ایسے سخت مرحلے میں خود اپنے کو مسلم قائد کہتے ہوئے ایسے بیانات دے رہے ہیں جس سے مسلم ووٹ بینک میں انتشار پیدا ہوسکتا ہے اور مودی اور آر ایس ایس یہی چاہتے ہیں ۔ کیونکہ مودی کا وزیر اعظم بننے کا خواب اور سنگھ کا ہندو راشٹرا بنانے کا سپنا صرف متحد مسلم ووٹ بینک اور اس ملک کا سیکولر ووٹ ہی چکنا چور کرسکتا ہے۔ اگر بادشاہ گر مسلم رائے دہندے بٹ جائیں تو بس یہ مودی کا خواب شرمندہ تعبیر ہوا سمجھیئے اور پھر ملک میں مسلمانوں کی حیثیت نعوذ باللہ ’ کتے کے پلے‘ ہوئی سمجھیئے۔ کیا محمود مدنی صاحب کو یہ بات سمجھ میں نہیں آتی، وہ کوئی بچہ نہیں کہ وہ یہ بھی نہیں سمجھ سکتے کہ اس قسم کے بیانات کسی کی راہ ہموار کررہے ہیں۔ اگر محمود مدنی کو یہ بات سمجھ میں آتی ہے تو خدارا خاموش رہیں تو بہت بہتر ہوگا۔